لاہور: (تجزیہ :سلمان غنی) منتخب حکومتوں کے خاتمہ میں تقریباً دو ماہ باقی ہیں مگر ابھی سے نگران حکومتوں کے قیام کیلئے حکومت اور اپوزیشن نے اپنے اپنے طور پر مختلف ناموں پر غور شروع کر دیا ہے، ان کی پر زور کوشش یہ ہے کہ ایک فریق دوسرے فریق کا دیا ہوا نام نگران حکومت کے وزیراعظم کے طور پر تسلیم کر لے کیونکہ نگران حکومت کا قیام اور وزیراعظم کا انتخاب خالصتاً آئینی طور پر قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کا طے شدہ استحقاق ہے مگر کسی ایک نام پر اتفاق رائے جمہوریت کا مسلمہ اصول ہے مگر ملک میں جاری عدم استحکام سیاسی جماعتوں میں بڑھتی ہوئی محاذ آرائی اور آئندہ عام انتخابات کے حوالہ سے ہونے والی سیاسی صف بندی کی بنیاد پر موجودہ حکومت اور اپوزیشن کی بڑی جماعت پیپلز پارٹی میں دوریاں اختلافات اور شکوک و شبہات بڑھتے جا رہے ہیں۔
تاریخ میں پہلی مرتبہ ملک کے طاقتور اداروں کے ساتھ حکومت کی لڑائی میں پیپلز پارٹی پل کے دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھڑی ہے لہذا اس وقت نگران وزیراعظم کے انتخاب کے مرحلہ پر ملک کی دونوں بڑی جماعتوں میں بات بنتی نظر نہیں آ رہی لہذا اس میں بھی خدشہ یہی ہے کہ نگران حکومت کے انتخاب کا مرحلہ بھی اتفاق رائے کے بجائے محاذ آرائی سے اتنا بھرپور ہو گا کہ سینیٹ کے حالیہ انتخابات کی طرح کی سیاسی صورتحال ملک میں طاری ہو جائے گی اسلام آباد کے ذمہ دار حلقے اس ایشو پر بھی خاموش اسٹیبلشمنٹ کی طرف نظر جمائے ہوئے ہیں اور عام تاثر یہی ہے کہ نگران وزیراعظم کیلئے اسٹیبلشمنٹ کا کوئی منظور نظر چہرہ سیاسی عمل میں اتارا جائے گا اور چیئرمین سینیٹ کی طرز پر یہ نام بھی پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ حکومت کے سامنے رکھیں گے اور ساتھ یہ تاثر بھی دیں گے کہ اپوزیشن کی دیگر جماعتیں خصوصاً عمران خان کی تائید بھی انہیں حاصل ہے۔
اب تک کا سیاسی منظرنامہ بھی یہی کہہ رہا ہے کہ اس معاملہ پر آصف زرداری اور عمران خان میں بہت کچھ طے ہونے کی اطلاعات ہیں اسلام آباد کے ذمہ دار حلقوں میں نئے نگران وزیراعظم کے نام کیلئے بھی چیئرمین نیب کی طرح کسی ریٹائرڈ جسٹس کا نام گردش میں ہے کیونکہ سمجھا جا رہا ہے کہ نئی صورتحال میں جہاں عدلیہ کا کردار اہم ہے وہاں نئے نظم و نسق میں بھی ریٹائرڈ ججز کو ہی آگے لا کر مطلوبہ نتائج حاصل کئے جائیں گے، جیسے دودھ کا جلا چھاچھ پھونک پھونک کر پیتا ہے ویسے ہی ن لیگ بھی چیئرمین سینیٹ کی تقرری کے بعد ہر معاملے میں سوچ سمجھ کر قدم اٹھانے کی حکمت عملی پر گامزن ہے۔ ن لیگ کے حلقوں کے مطابق آئندہ نگران وزیراعظم کیلئے مسلم لیگ ن نے ابھی سے مشاورت شروع کر رکھی ہے اور ہر قیمت پر اپنا نامزد کردہ نگران وزیراعظم بنوانا چاہتی ہے ، اس لئے وہ کسی غیر جانبدار اور سب کیلئے قابل قبول قومی شخصیت کی تلاش میں سرگرم ہے۔
بعض کی رائے ہے کہ پیپلز پارٹی اپنے سیاسی پتے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھڑے ہو کر کھیل چکی ہے لہذا حکومت کی طرف سے اس کے نام کی تائید کافی مشکل ہو گی البتہ ذرائع یہ خدشہ ضرور ظاہر کر رہے ہیں کہ نگران وزیراعظم کے نام پر نیا سیاسی بحران کھڑا ہو گا اگر ایسا ہوا تو یہ ملک کی بدقسمتی ہو گی۔ اس معاملے میں اگر اتفاق رائے نہ ہوا تو خدانخواستہ ملک میں جمہوریت کے تسلسل اور ایک حکومت کے بعد دوسری حکومت کے تسلسل میں کوئی بڑا اپ سیٹ ہو سکتا ہے کیونکہ حکومت سمجھتی ہے کہ اگر معاملات پارلیمنٹ سے نکلے تو پھر آئینی اداروں میں تصادم ہو گا۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو ابھی سے یہ ٹاسک سونپ دیا گیا ہے کہ وہ اس ضمن میں کسی بھی غیر معمولی صورتحال سے نمٹنے کیلئے آئینی اداروں سے مل کر اپنا کردار ادا کریں اور کوئی ایسا متفقہ امیدوار قوم کے سامنے لایا جائے جس پر ملک کی کوئی سیاسی قوت یا ادارے اثرانداز نہ ہو سکیں اور ملک کے اندر آزادانہ غیر جانبدارانہ اور منصفانہ انتخابی عمل یقینی بنایا جاسکے۔
نگران حکومت کے قیام کے حوالے سے آنے والی ٹائمنگ بڑی اہمیت رکھتی ہے کیونکہ ایک طرف نگران حکومت کے قیام کیلئے بات چیت کا مرحلہ ہو گا اور دوسری طرف ن لیگ کے قائد میاں نوازشریف کے خلاف مقدمات کے ممکنہ فیصلے ہونگے اس لیے حکومت اور ن لیگ کسی ہنگامی اور غیر متوقع صورتحال سے بچاؤ اور نمٹنے کیلئے ابھی سے منصوبہ بندی میں لگی ہوئی ہے ادھر دوسری طرف کچھ ریٹائرڈ ججز اور بیورو کریٹ اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ سے پس پردہ رابطوں میں ہیں۔