لاہور: (تجزیہ :سلمان غنی) ملک میں اندرونی امن و امان اور استحکام کے ذمہ دار وزیر داخلہ احسن اقبال پر فائرنگ کے واقعہ نے ایک غیر معمولی صورت حال کو جنم دیا ہے، سیاسی محاذ آرائی پر تناؤ اور کشمکش کی صورت حال سے بظاہر یہی لگتا ہے کہ بات اب قاتلانہ حملوں تک جا پہنچی ہے، قاتلانہ حملے میں ملوث کون ہے ؟ اس کے عزائم کیا تھے ؟ کیا یہ اس کا انفرادی فعل ہے ؟ یا اس کے پیچھے کوئی عنصر مذموم عزائم رکھتا ہے ؟ عین انتخابات سے پہلے اس طرح کے واقعات کے بعد انتخابی مہم چلانا ممکن ہو گا ؟۔
وزیر داخلہ پر حملہ انہیں دباؤ میں لانے یا راستے سے ہٹانے کا پلان تھا تو دیگر سیاست دانوں کا کیا حال ہو گا جو اس وقت انتخابی مہم میں اپنے حلقوں میں عوام سے رابطہ بحال کر چکے ہیں اور ابھی کارنر میٹنگز میں مصروف ہیں۔ اس ساری صورتحال کی سنگینی کا احساس تب زیادہ ہوتا ہے جب آپ سوچتے ہیں کہ ملک کا وزیر داخلہ جس نے ہر عام و خاص کی سکیورٹی اور تحفظ کویقینی بنانا ہے اگر وہ خود غیر محفوظ ہے تو ملک میں امن عامہ اور دہشت گردی نیٹ ورک کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ در حقیقت وزیر داخلہ پر حملہ ان کی اپنی سکیورٹی کی ناکامی ہے ۔ اس پر ایک اعلیٰ سطح کی تحقیقاتی کمیٹی کو کام کر کے حکومت کو رپورٹ پیش کرنی چاہیے۔ ملک میں عام انتخابات کی آمد اور انتخابی ماحول کو سامنے رکھیں تو یہ حملہ اپنے اثرات ہر سطح پر مرتب کرے گا۔ احسن اقبال پر حملہ انتخابی ماحول میں غیر یقینی کی فضا میں مزید اضافہ کرے گا، اب ہر سطح پر یہ بحث شروع ہو جائے گی کہ آیا ملک میں امن و امان کی صورت حال سوالیہ نشان بن چکی ہے ؟ آیا اس وقت الیکشن کا انعقاد ہونا بھی چاہیے یا نہیں ؟ ملک میں اس نوعیت کا کوئی دوسرا واقعہ یقیناً ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کو خطرے کی جانب دھکیل دے گا۔
اگر انتخابات اس ماحول میں بھی ہوں تو وفاقی وزیر داخلہ پر حملہ یہ پیغام دے رہا ہے کہ کیا ن لیگ کے ساتھ وہی معاملہ تو نہیں ہو رہا ہے جس سے پیپلزپارٹی 2013ء کے عام انتخابات میں نبرد آزما ہوئی تھی۔ جب آصف زرداری اور اس کی جماعت اپنے ڈرائنگ روم تک محدود ہو گئی تھی اور آج تک آصف زرداری اس صورتحال کا شکوہ کرتے ہیں کہ ہمیں انتخابات میں دیوار سے لگا دیا گیا۔ سیاسی محاذ آرائی، مخالفانہ نعرے پھر سیاست میں جوتا گردی کے مکروہ نظارے، سیاہی سے سیاسی مخالفین کے منہ کالا کرنا اور اب گولی کا استعمال نہایت خطرناک صورت حال کی جانب پیش قدمی ہے۔ یہ گولی محض احسن اقبال کو نہیں لگی بلکہ ملک میں آئندہ انتخابات کو نشانہ بنایا گیا ہے، اس واقعہ کا تعلق ہو سکتا ہے کہ حلقے کی اندرونی صورت حال سے ہو ،حلقہ میں احسن اقبال کی سیاست کو چلانے والے افراد اپنے حلقہ میں انتقامی کارروائیوں اور تھانہ کچہری کے استعمال میں خاصے غیر محتاط ہی۔
ہو سکتا ہے یہ کوئی ناراض نوجوان ہو۔ اور اﷲ کرے اس واقعہ کا پس منظر دہشت گردی سے نہ ہو یہ سب معاملات تو تحقیقات کے عمل میں سامنے آئیں گے مگر محکمہ داخلہ نے وزیر داخلہ کو خطرے کی پیشگی خبر دی تھی۔ مگر ان کے حلقہ اور حامیوں کی کارنر میٹنگ میں ان پر گولی چلنا انتہائی غیر متوقع اور حیران کن ہے یہ خود وزیر داخلہ کی سکیورٹی پر سوالیہ نشان ہے اور بتا رہا ہے کہ ملک دہشت گردی کے خلاف کامیابی میں ابھی بہت دور کھڑا ہے۔ عام انتخابات میں سیاسی ماحول، انتخابی مہم، پولنگ پلان اور خصوصاً انتخابی دن میں ووٹرز اور سیاسی جماعتوں کے کارکنان کی زندگی کی حفاظت ریاستی اداروں اور پولیس کی بڑی ذمہ داری ہو گی کیا اس کے لئے ملک کی سکیورٹی کے ذمہ دار ادارے کوئی قابل عمل پلان تیار کر چکے ہیں ؟ کیونکہ آئندہ انتخابات کے حوالے سے ابھی سے سکیورٹی پلان بنانا اور اسے منظور کرنا وفاقی اور موجودہ صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کیا اس پر کام شروع ہو چکا ہے ؟ کیا الیکشن کمیشن سے تجاویز اور خود افواج پاکستان یا وزارت داخلہ کے ماتحت کام کرنے والے ادارے رینجرز سے اس ساری صورت حال سے نمٹنے کی مشاورت شروع کی جا چکی ہے؟۔
اس وقت شدید خدشہ یہی ہے کہ ملک میں دہشت گردی کا کوئی بھی بڑا واقعہ انتخابات کی منزل سے ہمیں دور لے جا سکتا ہے۔ اس واقعہ کے بعد حکومت اپنی مشاورت کو اداروں کے ساتھ تمام سیاسی جماعتوں تک بھی بڑھائے تاکہ سب سٹیک ہولڈرز اس صورت حال کا بوجھ اور ذمہ داری کا احساس پیدا کریں۔ اس وقت سیاسی رہنماؤں پر لازم ہو گیا ہے کہ جلسوں اور بیانات میں اپنے اپنے ایجنڈے اور پروگرام پر زیادہ بات کریں نہ کہ نفرت کی بنیاد پر سیاسی حملے کریں اور قوم کو مزید تقسیم کریں۔ قوم میں مزید تقسیم ہمیں مذہب، وفاق پاکستان اور سیاسی نقطہ نظر کے معاملے پر مزید کمزور کر دے گی اور اس سے برداشت ختم ہو جائے گی۔