لاہور: (روزنامہ دنیا) کراچی سٹی کورٹ یعنی ماتحت عدالتوں کے مال خانے میں کل رات اڑھائی بجے ایک بار پھر آگ لگ گئی۔ مال خانے میں دستی بم پھٹنے سے پورا علاقہ دھماکے کی آواز سے لرز اٹھا۔ آگ کی شدت سے مال خانے کی چھت گر گئی، سب سے اہم بات یہ ہے کہ مال خانے میں لگنے والی یہ چوتھی آگ تھی جس سے مال خانہ اور وہاں موجود ریکارڈ جل کر راکھ ہو گیا۔
مال خانے میں ضلع ملیر کے علاوہ کراچی کے 5 اضلاع میں چلنے والے ہزاروں مقدمات کی فائلیں موجود تھیں مگر ان کیسوں کے دستاویزی شواہد اب جل کر خاکستر ہو گئے ہیں۔ اسلحہ ناکارہ ، منشیات خاکستر اور کروڑوں کے سونے چاندی کے زیورات پگھل گئے ہیں۔ تین بار پہلے آگ لگنے کے باوجود مال خانہ کے اطراف میں سی سی ٹی وی کیمرے نہیں تھے۔ مال خانے کو باہر سے تالہ لگا تھا۔
اس مال خانے کو کچھ عرصہ بعد کیوں آگ لگ جاتی ہے نہ پہلے اس کا تعین ہوا اور نہ جانے اب بھی اس کا تعین ہو پائے گا یا نہیں؟ اس سے فوجداری اور سول فیصلوں پر اثر پڑے گا۔ سنگین جرائم میں ملوث دہشت گردوں کو قانونی فائدہ ہوسکتا ہے۔ اس سلسلے میں کراچی بار کے صدر حیدر امام رضوی نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ 5 سالوں میں چوتھی بار یہ آگ لگی ہے لیکن مال خانہ یہاں سے کسی محفوظ مقام پر منتقل نہیں کیا گیا۔ اس آتشزدگی سے ہزاروں فائلیں ضائع ہوگئی ہیں اور اس کا فائدہ ملزموں کو پہنچے گا جو سنگین نوعیت کے مختلف مقدمات میں ملوث ہیں۔ غریب طبقے کو انصاف نہیں مل سکے گا اور پراسیکیوشن کو کیس ثابت کرنے میں انتہائی دشواری ہو گی۔
مال خانے کا نظام پولیس کے تحت ہوتا ہے متعلقہ ایس ایس پی اس کا انچارج ہوتا ہے، یہاں ہر وقت گارڈز تعینات ہوتے ہیں اس سے پہلے بھی متعدد بے ضابطگیاں دیکھنے میں آئی ہیں۔
2014 میں کراچی بار کے اس وقت کے صدر نے حکام کو خط لکھا تھا کہ مال خانے میں دھماکہ خیز مواد موجود ہے اس سے وکلا اور شہریوں کی جانوں کو خطرہ ہے اس کو کسی محفوظ جگہ منتقل کردیا جائے لیکن اس پر کبھی کان نہیں دھرا گیا۔ عدلیہ کو بھی دیکھنا چاہئے تھا ہزاروں لوگوں کا سونا اور زیورات جل گئے ہیں وہ کہاں کلیم کریں گے؟ لوگ شواہد ضائع ہونے پر چھوٹ جائیں گے، اس کا کون ذمہ دار ہوگا؟
( دنیا کامران خان کے ساتھ )