اسلام آباد: (دنیا نیوز) بلوچستان میں پانی کی قلت سے متعلق ازخود نوٹس کیس کے دوران سابق وزرائے اعلیٰ نے سپریم کورٹ کی توجہ صوبے امن و امان کیلئے مزید اقدامات کی طرف دلائی جس پرعدالت نے آئی جیز، ایف سی جنوبی و شمالی بلوچستان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نوٹسزجاری کر دیئے۔
بلوچستان میں پانی کی قلت سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران سابق وزرائے اعلیٰ ثنااللہ زہری اور عبدالمالک عدالت میں پیش ہوئے، چیف جسٹس نے دونوں سابق وزرائے اعلیٰ سے استفسار کیا کہ وہ صوبے میں پانی کی صورتحال سے مطمئین ہیں ؟ بلوچستان میں جھیلیں سوکھ گئی ہیں، کیا اقدامات کیے؟ بجٹ کا مسئلہ مت بتائیے گا کہ پیسہ نہیں ہے۔
عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ حکومت کو فعال کرنے کی بہت کوشش کی، امن وامان کے بغیر کچھ درست نہیں ہوسکتا، 2013 سے 2105 تک جرائم کی شرح میں کمی ہوئی، سابق آئی جی کو بلاکر پوچھ لیں پولیس میں سیاسی مداخلت نہیں کی، تعلیم کا بجٹ 4 سے بڑھا کر 24 فیصد کیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ صوبے میں 6054 سکولوں کی دیوار اور ٹائلٹ نہیں ہیں، سالانہ 100 سکولوں کو اپ گریڈ کریںگے تو 6 ہزار سکولوں کو اپ گریڈ کرنے میں 60 سال لگیں گے۔
عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ نئے سکولوں کو بنانے کے لیے 62 ارب روپے چاہییں، جبکہ صوبے کا کل بجٹ 42 ارب روپے ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کوئٹہ کے ہسپتالوں کی خراب حالت دیکھ کر دکھ ہوا، ہسپتالوں میں سی سی یو نہیں ہیں، بلوچستان پسماندہ نہیں بلکہ دولت سے مالامال ہے، بلوچستان کو جید قائد کی ضرورت ہے۔ موجودہ وزیراعلیٰ کو عہدہ سنبھالے 2 ماہ نہیں ہوئے، آپ 5 سالہ دور میں صحت، تعلیم اور پانی سے متعلق اپنے اقدامات بتائیں۔
سابق وزیراعلیٰ عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ انہوں نے سب سے پہلے امان وامان کی صورتحال کو بہترکیا، 2013 کا الیکشن ایک جنگ تھی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیوں بلوچستان کو خود سے حکمرانی کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی ؟ بلوچستان کے لوگ سیاسی طور پر طاقت میں نہیں ہیں، کوئٹہ سمیت پورے صوبے میں پانی ختم ہو رہا ہے، قلت ختم کر کے لوگوں کو پانی فراہم کر دیتے، بتائیں عدلیہ بلوچستان کے حالات کے حوالے سے کیا کردار ادا کر سکتی ہے؟ عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ جن لوگوں نے کام کیا ان کی ستائش اور کام نہ کرنے والوں کی سرزنش کریں، کئی علاقوں میں اب بھی شرپسند موجود ہیں۔
ثناء اللہ زہری نے کہا کہ بلوچستان پتھر کے دور میں چلا گیا تھا، سریاب کے علاقے میں لوگ جا نہیں سکتے تھے، ان کے اور ڈاکٹر عبدالمالک کے آنے کے بعد حالات بہتر ہوئے، عدالت اس کی تعریف بھی کرے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بتا دیں کہ پانچ سال میں پانی کا مسئلہ حل ہوا ؟ عدلیہ حالات کی بہتری کے لیے معاونت کرنا چاہتی ہے، خدارا جا کر دیکھیں حالات کیا ہیں۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ تمام معاملات کو اس وقت زیر بحث نہیں لا سکتے، جنہوں نے کام نہیں کیا ان پر ذمہ داری عائد کرنی پڑے گی۔ کیس کی مزید سماعت جمعرات کو کوئٹہ رجسٹری میں ہوگی۔