برف تلے دبی قدیم انسانی تہذیب کی باقیات

Last Updated On 14 June,2018 11:42 am

لاہور: (روزنامہ دنیا) امریکی شہر لاس ویگاس کے ماہرین رومی سلطنت کے عروج و زوال کو تاریخ کی کتابوں میں ڈھونڈنے کی بجائے گرین لینڈ، آئیس شیڈ یعنی گرین لینڈ کے برفانی تودوں میں کہیں ڈھونڈ رہے ہیں۔ قدیم مغربی ثقافت کے آثار یہیں سے دریافت ہوں گے، ایسا سوچ رکھا ہے نویڈا میں واقع ڈیزرٹ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے سائنسدانوں نے۔

اس کی ٹیم میں ماضی کے برعکس کئی شعبوں کے ماہرین شامل ہیں۔ مثلاً برف کی تہوں کے سپیشلسٹ، آب و ہوا کے سائنسدان، ماہرین آثار قدیمہ اور معاشی تاریخ دان بھی شامل ہیں۔ جبکہ ٹیم کے ارکان کا تعلق آکسفورڈ یونیورسٹی، نارویجن انسٹی ٹیوٹ برائے فضائی تحقیق اور یونیورسٹی آف کوپن ہیگن سے ہے۔ اپنی تحقیق کے نتیجے میں نویڈا کے ماہرین کسی حد تک رومیوں کے عروج و زوال، ان کی جنگوں، وبائی امراض اور دیگر موضوعات کے بارے میں تھوڑا بہت جاننے میں کامیاب رہے ہیں۔

نویڈا کے انسٹی ٹیوٹ کو برطانوی، ڈنمارک اور ناروے کے ماہرین کی مدد بھی حاصل ہے۔ برف پر تحقیق سے انہوں نے اس بات کا سراغ لگایا کہ زمانہ قدیم میں یورپی معاشرے کس طرح تبدیل ہوئے۔ یونانی اور رومن سلطنت میں چاندی کے سکے بطور کرنسی استعمال ہوتے تھے۔ انہوں نے سیسہ بھی تیار کیا۔ اور اس کے ذرات ہوا کے ساتھ 28سو میل دور گرین لینڈ کی برف میں جم گئے۔ مگر ان سے شعاعوں کا اخراج جاری رہا۔ اور ایک تہہ معرض وجود میں آئی۔

چاندی اور سیاہی پر تحقیق کے بعد سائنسدان حیرت انگیز طور پر انتہائی باریکی کے ساتھ سکوں کی تاریخ اور ان کی شناخت کا پتہ چلا سکتے ہیں۔ بی آر آئی کے محقق پروفیسر جو میکونل کا کہنا ہے کہ یہ اطلاع بہت تعجب خیز ہے کہ ہم برف کے ایک ٹکڑے سے حیران کن معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔ مثلاً رومی سلطنت کے زمانے عروج میں اس کے ذرات کا اخراج بھی عروج پر ہو گا۔ اور ایسا دکھائی دیا کہ برف کی مختلف تہوں میں دفن یہ ذرات اس کی تاریخ کا سراغ دیتے ہیں۔

وبائی مرض غالباً خسرہ نے لاکھوں یورپیوں کو موت کی نیند سلا دیا اور شاید یہی اس کے زوال کا زمانہ تھا۔ سائنسدانوں کو رومی سلطنت کے عروج سے لے کر اس کے زوال تک کے عرصے تک کے ذرات ملے۔ محققین کی ٹیم نے اپنی تحقیق کو مئی 2018ء میں نیشنل اکیڈیمی آف سائنسز میں شائع کیا ہے۔ بقول میکونل ان کی ٹیم کے ارکان دو دہائیوں سے نویڈا کے ان برفانی تودوں پر تحقیق کر رہے ہیں اور برف کے یہ ڈھیلے دو دہائی قبل جمع کیے گئے تھے۔ جن پر کوپن ہیگن میں تحقیق ہوئی۔ جبکہ اس کے کچھ حصے رینو بھیجوا دئیے گئے۔ جہاں انہیں پگھلا کر 11 سو قبل از مسیح سے لے کر 800ء تک استعمال ہونے والی سیاہی کی مقدار کا پتہ لگانے کی کوشش کی گئی۔
سائنسدانوں نے 1990 ء کی دہائی میں بھی سیسے کے اخراج پر تحقیق کی۔ انہوں نے مختلف ادوار میں جمع ہونے والے سیسے کے حوالے سے 21 ہزار قسم کا ڈیٹا جمع کیا۔ میکونل خود حیران ہیں کہ وہ 19 سو سال کا سراغ لگانے میں کس قدر کامیاب رہے۔ رومیوں کے دور حکومت میں ذرات کا اخراج گزشتہ سو سالوں کے مقابلے میں 40 سے 50 گنا کم تھا۔

ہم شاید بہت ہی گندے لوگ ہیں۔ ڈی آر آئی کے سائنسدان اب یورپ میں مڈل ایجز سے لے کر ماڈرن ایج تک معاشی سرگرمیوں کے حجم پر تحقیق کرنا چاہ رہے ہیں۔ اور پھر اس کے بعد اگلا مرحلہ مصری سلطنت ہو گا۔ گرین لینڈ کی برف کے ذریعے وہ فرعنہ مصرکے معاشی طور طریقوں پر کچھ تحقیق کرناچاہیں گے پھر شاید ہمیں کسی ایک فرعون کی ضرورت پڑے گی، اس نے مسکراتے ہوئے کہا یہ کوئی تحقیق آسان نہیں نہ ہی اس کے لیے اتنے فنڈز دستیاب ہیں جتنی ضرورت ہے۔ فرعون پر تحقیق کرنے کے لیے انہیں حاتم طائی جیسے خزانے کی ضرورت ہو گی۔ جو ان کے پاس ہے نہیں۔

تحریر: ڈاکٹر فراز