لاہور: (طارق عزیز) سابق وزیراعظم نواز شریف احتساب عدالت میں 4 گھنٹے اور 5 منٹ موجود رہے، قائد ن لیگ کو نیب کورٹ میں صبح 9:20 پر لایا گیا جبکہ وہ دوپہر کو 1.25 پر وہاں سے اڈیالہ جیل واپسی کیلئے رخصت ہوگئے۔ نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث بروقت نہ پہنچے جس پر عدالتی کارروائی ساڑھے دس بجے شروع ہوئی، قائد ن لیگ کو پارٹی رہنمائوں سے ملنے اور مشاورت کے لئے ایک گھنٹہ دس منٹ کا وقت مل گیا، جج کے آنے سے چند منٹ قبل نیب اہلکار کمرہ عدالت میں تین صندوق اور تین چمڑے کے بیگ لے کرآئے جنہیں جج کی نشست کے دائیں جانب رکھ دیا گیا اور پہرے پر 2 اہلکار تمام وقت موجود رہے۔ لوہے کے صندوقوں پر باکس ون، باکس ٹو اور باکس تھری تحریر تھا، باکس ون پر پاناما جے آئی ٹی فائنل رپورٹ، باکس ٹو پر گواہان کے بیانات کی چٹیں چسپاں تھیں جبکہ باکس تھری پر پاناما جے آئی ٹی رپورٹ والیم 10 لکھا تھا۔ صندوقوں پر درمیانے سائز کے تالے پڑے ہوئے تھے چمڑے کے تین بڑے تھیلے کافی وزنی محسوس ہورہے تھے ان پر کچھ تحریر نہیں تھا، دلچسپ امر یہ ہے کہ ثبوت کے طور پر لائے گئے صندوق اور چمڑے کے تھیلے جوں کے توں پڑے رہے، چاق و چوبند اہلکار ایک سیکنڈ کے لئے ’’ ثبوتوں‘‘ سے آگے پیچھے نہیں ہوئے۔
نواز شریف نے عدالتی کمرہ میں سینیٹر پرویز رشید، مشاہد اللہ خان، مشاہد حسین سید، سعدیہ عباسی، چوہدری تنویر، نزہت صادق، غوث بخش نیازی، اسد جونیجو، ایم این ایز رانا تنویر، میاں جاوید لطیف، سابق وفاقی وزیر کامران مائیکل اور دیگر سے ملاقاتیں کیں، اس دوران صدارتی الیکشن بارے مشاورت ہوئی، نواز شریف کو بریف کیا گیا کہ پی پی اعتزاز احسن کے نام پر ڈٹی ہوئی ہے اور مولانا فضل الرحمن نے بھی کاغذات نامزدگی داخل کرا دیئے ہیں، کمرہ عدالت میں صدارتی امیدوار مولانا فضل الرحمن کی حمایت کا معاملہ زیر بحث آیا اور چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی پر بھی غور کیا گیا۔ اس سلسلہ میں صورتحال سے نواز شریف کو سینئر رہنمائوں نے آگاہ کیا، ڈاکٹر آصف کرمانی والد کی وفات کی وجہ سے احتساب عدالت نہیں آئے، نواز شریف نے آصف کرمانی کی کمی کو محسوس کیا، کمرہ عدالت میں جو ذمہ داریاں سینیٹر کرمانی ادا کرتے تھے گزشتہ روز وہ کام ن لیگ برطانیہ کے صدر ناصر بٹ نے کیا جبکہ رہنماؤں کو اندر لانے کی ذمہ داری چوہدری تنویر کی تھی جو کئی مرتبہ نواز شریف کی ہدایت پر باہر گئے اور متعدد پارٹی رہنماؤں کو نواز شریف سے ملاقات کے لئے اندر لے کر آئے، عدالتی کارروائی جو چار گھنٹوں پر محیط ہوگئی اس دوران کئی رہنما رانا تنویر، مشاہد حسین سید، مشاہد اللہ خان اٹھ کر چلے گئے جبکہ پرویز رشید ، سعدیہ عباسی، چوہدری تنویر، نزہت صادق، ناصر بٹ آخر تک موجود رہے۔
طویل عدالتی کارروائی کے دوران پارٹی رہنما کمرہ عدالت میں اونگھتے رہے، شوگر لیول ڈائون ہونے پر پرویز رشید نے ٹافیاں منگوائیں، کیس کی سماعت کے دوران پارٹی رہنما آپس میں گپ شپ بھی کرتے رہے ، ایک موقع پر ان کی آواز قدرے بلند ہوگئی تو جج نے سخت برہمی کا اظہار کیا اور کہا میاں نواز شریف کے ساتھ بات چیت تو سمجھ میں آتی ہے کیونکہ اس کا موقع آپ کو عدالت یا جیل میں ملتا ہے لیکن جو رہنما آپس میں گپ شپ کر رہے ہیں انہیں کیا مسئلہ ہے کیا وہ عدالت کے باہر اکٹھے نہیں بیٹھ سکتے۔ جج نے کہا جس کو باتیں کرنی ہیں وہ یہاں سے اٹھ کر چلا جائے جس پر عدالتی ماحول قدرے سنجیدہ ہوگیا۔ جج کا کہنا تھا کہ آپ کی گپ شپ سے میرا اور وکلا کا دھیان آپ کی طرف ہوجاتا ہے جس سے عدالتی کارروائی میں خلل پڑتا ہے۔ جج کے ریمارکس کے بعد خاموشی چھا گئی، رہنمائوں نے آپس میں گفتگو کا سلسلہ بند کر دیا اس قدر خاموشی ہوئی کہ نواز شریف خود بھی اونگھنے لگے تھوڑی دیر بعد جب نواز شریف کی آنکھ کھلی تو انہوں نے جیب سے چھوٹا کنگھا نکال کر اپنے بال درست کئے، مایوس کن صورتحال یہ تھی کہ نیب عدالت کے باہر نواز شریف کی آمد اور واپسی پر صرف 4 سے 5 عہدیدار موجود تھے۔ ایم پی اے زیب النسا اعوان، چوہدری جمیل الزماں کو کمرہ عدالت میں نہیں جانے دیا گیا جس پر وہ مایوس واپس لوٹ گئے، عدالتی کارروائی کے دوران نواز شریف کو پیاس لگی تو انہیں گلاس میں پانی دیا گیا جو انہوں نے نہیں پیا بعدازاں انہیں منرل واٹر کی بوتل دی گئی جس سے انہوں نے پیاس بجھائی۔
ایک بج کر بیس منٹ پر جج نے کہا کہ ظہر کی نماز کے لئے بیس منٹ کا وقفہ ہے، نواز شریف جا سکتے ہیں نواز شریف جونہی کمرہ عدالت کے دروازے پر آئے تو انہیں سکیورٹی اہلکاروں اور اسلام آباد انتظامیہ نے مزید پانچ منٹ عدالت میں موجود رہنے کی درخواست کی کیونکہ سکواڈ اور دیگر گاڑیاں تیار نہیں تھیں، اس دوران نواز شریف عقبی بنچ پر بیٹھے ساتھیوں سے گپ شپ کرتے رہے، عدالتی کارروائی کے دوران نواز شریف نے اپنے ذاتی سٹاف حاجی شکیل اور عابد اللہ جان کو بہت مس کیا اور ان کے بارے میں متعدد مرتبہ استفسار کیا، نواز شریف عدالتی کمرہ سے باہر گئے تو واپسی پر بھول کر کمرہ نمبر ایک میں چلے گئے جہاں جج بشیر خان کی عدالت میں وہ پیش ہوتے رہے تھے توجہ دلانے پر وہ واپس کمرہ نمبر دو میں آگئے۔