لاہور: (امتیاز گل ) پاکستان جن سماجی معاشی مسائل سے دوچار ہے ، ان کی وجہ سے اکثر اسے ’’مسائلستان ‘‘ کہا جاتا ہے۔ ان گوناگوں مسائل کی وجہ گورننس ماڈل ہے جو کہ خواص کے گرد گھومتا ہے، اور اس میں سادگی اور عام شہریوں کی فلاح و بہبود پر کبھی توجہ مرکوز نہیں کی گئی۔ نئی حکومت اصلاح پسند ہونے کی دعویدار ہے، اور رپورٹس کے مطابق کئی عشروں کی کمزور گورننس کے منفی اثرات سے نمٹنے کیلئے دن رات کام کر رہی ہے۔ تاہم حکومتوں کا فوکس مسائل کی وجہ سے منتشر ہو سکتا ہے۔
’’سٹیٹس کو‘‘ کی حامی قوتوں کی جڑیں بھی بہت گہری ہیں، جس میں سیاسی اشرافیہ، اسٹیبلشمنٹ اور ہم خیال بیوروکریسی کی بڑی تعداد شامل ہے۔ ادارے بھلے نیک اور مخلصانہ ہوں، زمینی حقائق آسانی سے معمول کی گورننس، اصلاحات اور عملدرآمد سے توجہ ہٹا سکتے ہیں۔ اس کی تازہ مثال لاہور کے مختلف حصوں میں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر ہیں، جوکہ پہلے کی نسبت نمایاں طور پر دکھائی دیئے۔ 31 مئی کو شہباز شریف کی مدت ختم ہونے کے بعد بلدیاتی سروسز کی تنزلی ابھر کر سامنے آئی۔ نئی حکومت کیلئے فوری چیلنج اس تنزلی کا رخ موڑنا ہے۔ وزیراعظم نے اصلاحات کے عمل کو تیز کرنے کیلئے ٹاسک فورسز قائم کرنے کے عزم کا اظہا رکیا، مگر پیچیدہ زمینی حقائق جس میں حکومتی ڈھانچے کی کار گزاری شامل ہے، تقاضا کرتے ہیں کہ مختلف مسائل کے حوالے سے ’’پوائنٹ مین ‘‘ کی تقرری کی جائے۔ جیسے صدر جارج بش نے رچرڈ ہالبروک کو افغانستان کیلئے ’’پوائنٹ پرسن‘‘ مقرر کیا تھا بعدازاں کئی اہم ملکوں نے بھی ایسا ہی کیا۔
کیا نئی حکومت پنجاب اور خیبر پختونخوا سے پوائنٹ پرسنز لے سکتی ہے جوکہ گورننس کے مخصوص شعبے کی مانیٹرنگ، فالو اپ اور معمول کے مطابق وزیراعظم کو اس میں پیش رفت سے آگاہ کر سکیں۔ گورننس اور مالیاتی اصلاحات کیلئے ٹاسک فورسز کے علاوہ حکومت مختلف شعبوں کیلئے پوائنٹس مین کا تقرر کر سکتی ہے، جیسا کہ فاٹا کا انضمام۔ صوبائی حکومت کیلئے اکیلے اس ٹاسک کو تندہی کیساتھ بروقت مکمل کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ صوبائی حکومت کے اختیارات میں مداخلت نہ ہو، اس سے بچنے کیلئے پوائنٹ مین عملدرآمد اور سفارشات کے ذریعے وزیراعلیٰ کی معاونت کر سکتا ہے۔ فوجداری نظام عدل میں اصلاحات:ہمارا عدل کا نظام ضابطہ فوجداری / ضابطہ دیوانی اور پولیس پر مبنی ہے۔ یہ پورا نظام 1860 کی دہائی کے برطانوی دور کا ہے، اور اسے وسیع پیمانے پر نظر ثانی کی ضرور ت ہے۔ ضابطہ فوجداری/ضابطہ دیوانی اور پولیس میں اصلاحات کا جہاں تک تعلق ہے۔
پولیس حکام کی اکثریت اس بات سے اتفاق کرتی ہے کہ عدالتی کارروائیوں کا زیادہ تر جھکاؤ ملزم کی جانب ہوتا ہے اور گناہ گار، بااثر اور دولت مند افراد اکثر وبیشتر فائدہ میں رہتے ہیں۔ وہ اس بات پر بھی متفق ہیں کہ جیلیں اصلاح کے مراکز کے بجائے جرائم کی نرسریاں بن چکی ہیں۔ فرسودہ فوجداری نظام عدل میں اصلاحات کے بغیر فوری اور سستے انصاف کا حصول ایک خواب رہے گا۔ اس حوالے سے اصلاحات کی نشاندہی اور حل کیلئے پوائنٹ مین کی تقرری ناگزیر ہے۔ توانائی جو کہ قومی سلامتی کی نئی پالیسی کا حصہ بن چکی ہے، کیلئے ایک ماہر مانیٹر کی ضرورت ہے۔ توانائی کے شعبہ میں بہتری اور اس کے موثر استعمال کا انحصار پیداوار، تقسیم اور توانائی کے وسائل کی عمومی مینجمنٹ پر ہے ۔ ایک پرعزم مانیٹر معمول میں ان رکاوٹوں کی رپورٹنگ کر سکتا ہے جوکہ توانائی کے شعبہ کی ترقی میں حائل ہیں۔ واٹر مینجمنٹ / کنزرویشن:ماضی میں واٹر مینجمنٹ / کنزرویشن کیلئے پوائنٹ مین کی اس قدر ضرورت نہیں تھی، جتنی آج ہے۔
پانی کے سنگین بحران پر حکام اور ماہرین تیزی سے کم ہوتے ہائیڈل و سائل کا رونا روتے ہیں، مگر ابھی تک زراعت ، گھروں ، سروس سٹیشنوں وغیرہ پر پانی کے موثر استعمال کے حوالے سے کوئی پالیسی تیار نہیں کی گئی۔ اصلاحات کا ایجنڈا بھرپور توجہ، پرعزم کابینہ اور مختلف سوچ کی حامل بیوروکریسی کا تقاضا کرتا ہے۔ مگر انہیں بھی پوائنٹ پرسنز کی ضرورت ہے جو کہ باقاعدگی سے سسٹم کی خامیاں پکڑیں، اعلیٰ حکام کو رپورٹ کریں، حل تجویز کریں اور معمول کے مطابق فالو اپ بھی کریں۔ عام شہریوں سے وعدوں کے بھاری بوجھ تلے دبی نئی حکومت تجربات کی عیاشی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ ڈرگز کوالٹی کنٹرول:ملکی مارکیٹ میں جعلی یا غیر معیاری ادویات کی بھرما رہے۔ اس شعبے میں پوائنٹ مین جسے طبی ماہرین کی معاونت حاصل ہو، باقاعدگی سے مانیٹرنگ کر کے معیاری ادویات کی فراہمی یقینی بنا سکتا ہے۔ درج بالا شعبوں میں اصلاحات کے علاوہ پاکستان کو مستحکم مڈٹرم ٹیکسیشن پالیسی کی بھی ضرورت ہے جس میں کم از کم پانچ سال کیلئے کسی قسم کی تبدیلی نہ کرنے کی ضمانت دی گئی ہو۔ اگر نئی حکومت غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتی ہے، تو اسے کم از کم پانچ سال تک ٹیکسوں کے شعبہ میں کسی قسم کی تبدیلی نہ کرنے کی یقین دہانی کرانا ہو گی۔ من مانے ٹیکس اقدامات سے روکنے کیلئے ٹیکنوکریٹس کی ٹیم کو رہنما اور مانیٹر کے کردار ادا کرنا ہو نگے، کیونکہ اس قسم کے ٹیکس سابقہ حکومتوں کا طرہ امتیاز رہے ہیں۔