اسلام آباد: (دنیا نیوز) آصف علی زرداری کے زیرِ صدارت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کا اجلاس ہوا جس میں صدارتی انتخاب کیلئے مولانا فضل الرحمان کی درخواست پر غور کیا گیا جبکہ ان کی حمایت کے مضمرات اور سیاسی فوائد کا تقابلی جائزہ لیا گیا۔
اجلاس کے شرکا کو چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی رائے سے بھی آگاہ کیا گیا جس میں انہوں نے اعتزاز احسن کو ہی اپنا حتمی امیدوار قرار دیا۔ ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی رہنماؤں نے اعتزاز احسن کا نام واپس لینے کے آپشن کی مخالفت کرتے ہوئے صرف ان کے نام پر ہی اتفاق کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق اس موقع پر سابق صدر آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان قابل احترام ہیں، مگر ہمیں سیاسی فیصلہ کرنا ہے۔ پیپلز پارٹی اپنی اصولی سیاست پر سمجھوتہ نہیں کر سکتی۔
اجلاس میں صدارتی انتخاب کے بعد اپوزیشن اتحاد کے مستقبل پر بھی غور کیا گیا۔ پیپلز پارٹی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ ہمارا اپنا منشور اور اپنی سیاست ہے، ایشوز ٹو ایشوز اپوزیشن جماعتیں ایک موقف اپنا سکتی ہیں۔
پیپلز پارٹی کے اجلاس میں ضمنی الیکشن میں بھرپور حصہ لینے اور ہر حلقے سے امیدوار کھڑا کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔
پیپلز پارٹی کے مشاورتی اجلاس میں راجا پرویز اشرف، یوسف رضا گیلانی، خورشید شاہ، اعتزاز احسن، فرحت اللہ بابر، شیری رحمان، مولا بخش چانڈیو، قمر زمان کائرہ و دیگر نے شرکت کی۔
اجلاس کے بعد پیپلز پارٹی کا وفد مولانا فضل الرحمان کے پاس پہنچا اور انھیں اعتزاز احسن کو بطور صدارتی امیدوار برقرار رکھنے کے فیصلے سے آگاہ کیا۔
پیپلز پارٹی کے وفد میں رضا ربانی، راجا پرویز اشرف، قمر زمان کائرہ، شیری رحمان اور چودھری منظور شامل تھے جنہوں نے مولانا فضل الرحمان سے دستبردار ہونے کی درخواست کی۔
مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کے بعد پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے میڈیا سے گفتگو کی۔ سابق وزیرِاعظم راجا پرویز اشرف کا کہنا تھا کہ ہم مولانا فضل الرحمان کے پاس حاضر ہوئے ہیں، ہماری خواہش ہے کہ مولانا کی جماعت ہمارے صدارتی امیدوار کی حمایت کرے، مولانا صاحب نے کہا کہ جس مسئلے کے درمیان ایک رات ہو وہ مسئلہ نہیں ہوتا، ابھی دو راتیں باقی ہیں، امید ہے حل نکل آئے گا۔
اس موقع پر مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ آصف زرداری اور اعتزاز احسن سے میرے ذاتی مراسم ہیں، ہماری خواہش ہے کہ صدارتی انتخاب کے لیے اپوزیشن کا متفقہ امیدوار ہو، ابھی ایک نقطہ طے ہونا باقی ہے کہ اپوزیشن کا مشترکہ امیدوار کیسے لایا جائے، امید ہے ان دو دنوں میں کوئی اتفاقِ رائے پیدا ہو جائے گا۔
خیال رہے کہ مولانا فضل الرحمان نے سابق صدر آصف علی زرداری سے خصوصی ملاقات کر کے ان سے صدارتی انتخاب میں حمایت کی درخواست کی تھی لیکن آصف زرداری نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اعتزاز احسن کے علاوہ کوئی دوسرا امیدوار قابل قبول نہیں ہے۔
آصف زرداری نے مولانا فضل الرحمان کو دستبردار ہونے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ مولانا صاحب، اعتزاز احسن کی حمایت کریں، ہماری جانب سے اعتزاز احسن ہی صدارتی انتخاب لڑیں گے۔
اس ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے بتایا تھا پیپلز پارٹی کا منگل کو اہم اجلاس ہو گا جس میں صدارتی امیدوار کے حوالے سے حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔
اس سے قبل جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مرکزی سیکرٹریٹ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ میں ن لیگ کے صدر شہباز شریف سمیت اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کا مشکور ہوں جنہوں نے مجھ پر اعتماد کیا، پیپلز پارٹی کی جانب سے اعتزاز احسن کا نام واپس نہ لینے کی وجہ سے باقی اپوزیشن جماعتوں نے مجھے اپنا متفقہ امیدوار بنایا ہے، اب پیپلز پارٹی کو میرے نام پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم پہلے دن سے کہہ رہے ہیں کہ اپوزیشن اگر اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کر لیتی تو وزیرِاعظم کے الیکشن میں بھی گیم پلٹ سکتی تھی لیکن پیپلز پارٹی کی اپنی مجبوریاں ہیں، ہم دوستوں کو امتحان میں نہیں ڈالتے۔
مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ آصف زرداری سے ان کی بے تکلفی ہے اور وہ اشاروں کنایوں سے ان کو یہ بتا چکے ہیں کہ اگر دونوں بڑی جماعتوں کو ایک دوسرے کا صدارتی امیدوار قبول نہیں تو مجھے متفقہ امیدوار بنا لیا جائے، مجھے امید ہے کہ آصف زرداری مجھے مایوس نہیں کریں گے۔ میں کوشش کروں گا کہ پیپلز پارٹی اپنا امیدوار دستبردار کروا لے تا کہ اپوزیشن کامیابی حاصل کر سکے۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھی پیپلز پارٹی کی وجہ سے اپوزیشن تقسیم ہوئی اور میر ظفر اللہ جمالی ایک ووٹ سے وزیرِاعظم بن گئے۔ میرے صدارتی امیدوار بننے پر اگر آصف زرداری نے میرے کردار پر سوالیہ نشان اٹھایا ہے تو اس کا جواب بھی وہی دے سکتے ہیں۔