لاہور: (سلمان غنی) دھاندلی الزامات پر تحقیقات کیلئے حکومتی رضا مندی اور اس حوالے سے پارلیمانی کمیٹی کے قیام کو سیاسی محاذ پر ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا سکتا ہے۔ 25 جولائی کے انتخابی عمل اور خصوصاً انتخابات کی رات نتائج جمع کرنے کیلئے بنائے گئے سسٹم آر ٹی ایس پر حکمران جماعت تحریک انصاف سمیت تمام قابل ذکر جماعتوں اور قائدین نے اپنے تحفظات ظاہر کرتے ہوئے اسکی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔
وزیراعظم عمران خان نے اپنے انتخاب کے فوری بعد اعلان کیا تھا کہ ہم شفافیت کے قائل ہیں اور کسی خبر کو پوشیدہ نہیں رکھنا چاہتے اور کوئی ہم سے یہ توقع نہ کرے کہ ہم کوئی حلقہ کھلوانے کے راستے میں رکاوٹ بنیں گے۔ عمران خان کے اس بیان کا ہر سطح پر خیر مقدم ہوا لیکن بعد ازاں ان کے لاہور کے این اے 131 سے دوبارہ گنتی کے عمل کے خلاف عدالت سے رجوع پر اپوزیشن نے بہت سے سوالات کھڑے کئے تھے اور مسلسل پارلیمانی کمیٹی یا پارلیمانی کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔ حکومت نے براہ راست کمیٹی یا کمیشن کے قیام سے احتراز تو نہ برتا اور اب باقاعدہ طور پر حکومت کی جانب سے مخدوم شاہ محمود قریشی کی تحریک پر نہ صرف پارلیمانی کمیٹی کے قیام کی قرارداد منظور ہوئی بلکہ اس کمیٹی کے با اختیار ہونے کی یقین دہانی بھی کرائی گئی لہٰذا اب دیکھنا ہوگا کہ کمیٹی کس حد تک با اختیار ہوگی۔
الیکشن کے حوالہ سے تحفظات ظاہر کرنے والے کمیٹی کے سامنے کیا شواہد لیکر آتے ہیں اور کمیٹی کے قیام کے بعد اب اپوزیشن کے پاس حکومت پر دباؤ کیلئے کیا آپشنز ہوں گے۔ اس وقت پارلیمانی کمیشن کے حوالے سے اصل سوال یہی ہے کہ اس کے اختیارات کیا ہونگے ؟ کیونکہ شہباز شریف نے بھی اس کے ٹی او آرز پر مزید دباؤ کی بات کی ہے۔ اس کمیشن کا دائرہ کار کیا ہوگا؟ اور اس کے بعد اس کمیشن کے اختیارات کیا ہونگے ؟ ابھی ان سوالات کے جوابات کو ڈھونڈنا تو مشکل ہے مگر کمیشن کے بن جانے کی حد تک یہ ایک مستحسن فیصلہ ہے۔ اس سے حکومت پر دباؤ بظاہر ختم ہوگا۔ اب اپوزیشن کی کامیابی یہ ہو گی کہ پارلیمنٹ کے فلور پر اس کے دائرہ اختیار اور ٹی او آرز کو بنیاد بنا کر حکومت کو دباؤ سے نکلنے نہ دے۔ شہباز شریف کو وہ وقت یاد کرنا چاہئے جب پاناما پر پارلیمانی کمیشن کیلئے اپوزیشن نے رات دن ایک کئے رکھا اور حکومت کو مستقل دباؤ میں رکھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پارلیمنٹ سے معاملہ نکل کر عدالت کے ایوانوں تک پہنچ گیا اور باقی سب تاریخ میں محفوظ ہو چکا ہے۔ اس کمیشن کے اختیارات کا معاملہ بھی ابھی واضح نہیں ہے۔ اختیارات کے تعین کے بعد کوئی حتمی بات کی جا سکے گی کہ اس میں بحران سے نمٹنے کی صلاحیت ہے یا نہیں ؟۔
تیسرا اہم نکتہ دھاندلی کے الزامات لگانے والی سیاسی قوتوں کا ہوگا کیونکہ ان انتخابات میں پولنگ ڈے کی حد تک غیر معمولی شفافیت دیکھی گئی ہے۔ تمام الزامات تقریباً نتائج کے حوالے سے ہیں اور تنقید کرنیوالے بڑوں کا ہدف آر ٹی ایس ہے لہٰذا سیاسی جماعتوں کے پاس شواہد لازمی طور پر کم ہونگے مگر اس میں دو اہم ادارے نادرا اور الیکشن کمیشن آف پاکستان شدید دباؤ میں ہونگے کیونکہ دونوں ادارے آر ٹی ایس کی ناکامی کے حوالے سے متضاد بیانیے رکھتے ہیں۔ بہر حال یہ سسٹم الیکشن کمیشن کا تخلیقی منصوبہ تھا تو اسے اس حوالے سے ضرور کٹہرے میں سخت سوالات کا سامنا ہوگا۔ اپوزیشن مت بھولے کہ حکومتی ادارے ہمیشہ حکومت وقت کو نہ چاہتے ہوئے بھی سپورٹ کر رہے ہوتے ہیں اور یہ پاکستان میں گورننس کا اصل المیہ بھی ہے۔ لہٰذا بہت احتیاط اور پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے ۔ اس میں اپوزیشن جماعتوں کے پارلیمنٹ کے فلور پر اتحاد کا کلیدی کردار ہوگا وگرنہ حکومت اس بحران سے بچ نکلے گی۔
دوسری طرف حکومت پر ایک بحران کا بظاہر دروازہ بند ہو رہا ہے تو ایک نئی صورتحال سامنے منہ کھولے کھڑی ہے اور وہ ہے ایک نیا بجٹ جس میں عوام پر بھاری ٹیکسوں اور مہنگائی کے خوفناک طوفان کے ذریعے نئے پاکستان کی ابتدا ہوئی ہے۔ حکومت کی بصیرت کا بڑا امتحان اس خطرناک معاشی صورتحال میں ملک کے پسے ہوئے طبقات کی حمایت ہوگی جن پر ٹیکسوں کا بوجھ لادا گیا ہے اگر حکومت اس میں ناکام ہو گئی تو پھر صورتحال شہباز شریف کی جماعت کیلئے سازگار ہوگی اور پیپلز پارٹی بھی اس وقت اپنی پوزیشن پر نظرثانی کرے گی۔