لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) سابق وزیراعظم نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی اسلام آباد ہائیکورٹ سے سزا کی معطلی کے عمل نے ایک جانب جہاں مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں اور اراکین اسمبلی کے اندر خوشی کی لہر دوڑا دی ہے تو دوسری جانب یہ بھی ثابت ہو گیا کہ عدالتیں پوری طرح آزاد، با اختیار، انصاف کی فراہمی کے عمل کو یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔
سزا کی معطلی کے حوالے سے امکانات کی بات اس لئے ہو رہی تھی کہ نیب کی جانب سے پراسیکیوشن مضبوط نہ ہونے کے باعث ججز کے ریمارکس ظاہر کر رہے تھے کہ وہ ان کے دلائل سے مطمئن نہیں اور بار بار یہ کہتے دکھائی دے رہے تھے کہ مفروضوں کی بنیاد پر کسی کو سزا نہیں سنائی جا سکتی اور اب عدالتی فیصلہ سے یہ بات کھل کر سامنے آئی ہے کہ عدالت نے نیب کورٹ کے کمزور دلائل پر دی جانے والی سزا معطل کر دی، نیب کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کا اعلان بھی سامنے آیا ہے۔
سزا کی معطلی کے بعد جو سوالات سامنے آ رہے ہیں وہ یہ ہیں کہ اس رہائی کے عمل کے ملکی سیاست پر کیا اثرات ہوں گے، مشکلات میں گھری مسلم لیگ (ن) کو کوئی ریلیف مل سکے گا۔ نوازشریف کی رہائی سے حکومت کیلئے مسائل تو پیدا نہیں ہوں گے ؟ اور کیا مسلم لیگ ن کا اداروں کے حوالے سے بیانیہ تبدیل ہوگا؟ جہاں تک مسلم لیگ (ن)کی سیاست پر رہائی کے عمل کے اثرات کا سوال ہے تو ایک مرتبہ پھر مسلم لیگ ن کی سیاست ماڈل ٹاؤن، جاتی امرا شفٹ کر جائے گی۔ حالیہ دنوں میں بیگم کلثوم نواز کی وفات کے بعد سیاسی قوتوں خصوصاً پیپلز پارٹی کی قیادت آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری کا یہاں آنا اور دکھ، غم کی گھڑی میں شریف خاندان کے ساتھ شامل ہونا ان کے درمیان برف پگھلنے کا باعث بنا ہے اور اب پارلیمنٹ کی سطح پر اہم ایشوز پر اکٹھے نظر آنے کے امکانات نظر آ رہے ہیں۔
نواز شریف حکومت کے حوالے سے شدید تحفظات ظاہر کرنے والی پیپلز پارٹی یہ سمجھتی ہے کہ سیاسی فیصلوں کا اختیار آج بھی نواز شریف کے پاس ہے اور ان کا جاتی امرا میں آ بیٹھنا اور خاموشی اختیار کر لینا بھی کسی بڑے طوفان اور سیاسی امکانات کا باعث بن سکتا ہے کیونکہ باوجود سزاؤں کے عمل کے انتخابی نتائج نے ظاہر کیا ہے کہ نوازشریف کو اڈیالہ میں بند تو کیا جا سکتا ہے لیکن انہیں قومی سیاست سے آؤٹ نہیں کیا جا سکتا۔
جہاں تک نواز شریف کی رہائی سے حکومت کیلئے مسائل کا سوال ہے تو نوازشریف وقتی طور پر یہ نہیں چاہیں گے کہ حکومت پر دباؤ ڈالا جائے، اسے ٹارگٹ کیا جائے، چاہیں گے کہ سو دن تک عمران خان کی حکومت کا انتظار کیا جائے کہ کیا وہ واقعتاً بنیادی سیاسی تبدیلی اور اقتصادی بحالی اور ملک کو ترقی و خوشحالی کے عمل پر ڈال سکتے ہیں۔ جہاں تک مسلم لیگ (ن)کے بیانیہ کا تعلق ہے تو نہ چاہتے ہوئے بھی اس بیانیہ میں تبدیلی محسوس کی جائے گی کیونکہ نوازشریف کی نا اہلی کے بعد اگر اس وقت کی مسلم لیگ ن کی حکومت اور قیادت اس امر اور اس عمل پر شدت ظاہر نہ کرتی اور خود کو نکالے جانے کے عمل کو سازش قرار دیتے ہوئے اپنا سیاسی اور عوامی کیس نہ بناتی تو 25 جولائی کے انتخابات میں ان کا صفایا ہو جاتا۔
اس وقت اس بیانیہ کی ضرورت تھی اور اس کے نتیجہ میں اپنی سیاسی بقا اور انتخابی نتائج میں اپنا حصہ بحیثیت جثہ وصول کر لیا گیا لیکن اب بدلتے سیاسی حالات میں ن لیگ کی قیادت کبھی نہیں چاہے گی کہ وہ اداروں کو ٹارگٹ کر کے اپنے لئے مزید مشکلات پیدا کرے اور انہیں اپنے عدالتی، انتظامی اور سیاسی محاذ پر ریلیف درکار ہو گا اور منتخب حکومت کو کمزور کرنے کیلئے ایشوز کی سیاست کو اپنائے گی۔
جہاں تک رہائی کے اس عمل پر حکومت پر اثرات کا تعلق ہے تو اگر مسلم لیگ ن کے اندر خوشی کی لہر دوڑی ہے تو یقیناً اس کے اثرات ایک ٹیک آف کرتی حکومت کیلئے اچھے نہیں ہوں گے البتہ یہ ضرور ہو گا کہ وہ زیادہ الرٹ ہو کر کام کرے گی اور یہ نہیں چاہے گی کہ سیاسی اور عوامی سطح پر اس کی کمزوری کا کوئی پہلو نکلے کیونکہ اس حکومت سے عوام کو زیادہ توقعات اور زیادہ امیدیں ہیں کیونکہ عمران خان، ان کی جماعت نے ملک میں کرپشن، لوٹ مار کے خاتمہ ، گورننس کے خواب کو حقیقت بنانے اور سیاسی تبدیلی کے ذریعہ جمہوریت کے ثمرات عام آدمی تک لے جانے کا پیغام دیا تھا۔
پہلے ہی مرحلہ میں ان کی جماعت سے آنے والے منی بجٹ سے عوام کے اندر مایوسی پیدا ہوئی ہے خصوصاً گیس کی قیمتوں میں اضافہ نہ کرنے کے اعلان کے باوجود اضافہ کے عمل سے لوگ پریشان ہوئے ہیں، جہاں تک سزا کی معطلی کے عمل کے قانونی اثرات کا تعلق ہے تو ابھی فی الحال سزا معطل ہوئی ہے، با عزت رہائی نہیں بلکہ اب اس معطلی کے خلاف اپیل کی سماعت ہوگی تو معاملہ آگے چلے گا۔
ابھی ایک ریفرنس پر ہونے والی سزا کے فیصلہ کی معطلی ہوئی ہے، ابھی دو ریفرنس اور ہیں اور تلوار شریف خاندان پر لٹکتی نظر آ رہی ہے۔ سزا کی معطلی کا حقیقی اور سیاسی پیغام یہی ہے کہ مایوس ن لیگ کو ریلیف ملا ہے ان کی پارٹی کو تقویت حاصل ہوگی لیکن اس جیت اور خوشی کو ہضم کرنا ضروری ہو گا اور غالباً یہی شریف قیادت کا اصل امتحان ہوگا۔
جہاں تک رہائی کے اس عمل میں شہباز شریف کے کردار کا تعلق ہے تو فیصلہ تو عدالتی ہے لیکن شہباز شریف کی سرگرمیاں ان کا وقت سے پہلے عدالت میں پہنچنا اور ان کے چہرے کا اعتماد یہ ظاہر ضرور کر رہا تھا کہ اب کورٹ سے خالی ہاتھ نہیں جائیں گے، آخرکار وہ اپنے بڑے بھائی نوازشریف کو جاتی امرا لائے ہیں اس میں ان کے کریڈٹ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ہمیشہ عوامی سطح پر ایک شعر پڑھتے نظر آتے رہے ہیں کہ مجھے یقین ہے کہ رستہ یہیں سے نکلے گا تو اب ان پر اس سوال کا جواب واجب ہوگا کہ وہ بتائیں کہ راستہ کہاں سے نکلا اور کیا رہائی کا یہ عمل عارضی ہے یا مستقل۔ اس کا جواب صرف وہی بتانے کی پوزیشن میں ہیں۔