اسلام آباد: (دنیا نیوز) اسلام آباد ہائی کورٹ نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا معطلی کیلئے دائر درخواست پر آ ج فیصلہ سنائے گی، عدالت نے پراسیکیوٹر اکرم قریشی کو آج بدھ کے روز تک دلائل مکمل کرنے کا حکم دیدیا۔
جسٹس میاں گل حسن نے ریمارکس دئیے کہ بدھ کو نیب نے دلائل مکمل نہ کیے تو تحریری دلائل پر فیصلہ سنا دیں گے۔ بتایا جائے اگر ایون فیلڈ فلیٹس کے اصل مالک نواز شریف ہیں تو مریم نواز کو نائن اے فائیو میں سزا کیوں سنائی گئی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے دو رکنی بینچ کے روبرو نیب پراسیکیوٹر اکرم قریشی نے دلائل دئیے کہ بچہ جس کے گھر میں پیدا ہوتا ہے اسی کے زیر کفالت ہوتا ہے۔ نیب نے شواہد سے ثابت کیا کہ 1993 سے فلیٹس ملزموں کے قبضے میں رہے۔ اس کے بعد بار ثبوت ملزموں پر تھا وہ بتاتے کہ فلیٹس خریدنے کیلئے رقم والد سے نہیں دادا سے لی۔ نواز شریف نے جائیداد سے متعلق کچھ بتائے بغیر کہہ دیا کہ اس حوالے سے بچے ہی بتاسکتے ہیں۔
نیب پراسیکیوٹر نے نواز شریف کے بچوں کی کمپنیوں سے متعلق چارٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ کیپیٹل ایف زیڈ ای سمیت کئی کمپنیاں ہیں جو ایک دوسرے کو پیسہ بھجواتی رہی ہیں۔ جسٹس میاں گل حسن نے سوال اٹھایا کہ نواز شریف اصل مالک اور مریم نواز بے نامی دار ہیں تو مریم نواز کو نائن اے فائیو میں سزا کیوں سنائی گئی، کیا مریم نواز نے آمدن سے زائد اثاثے بنائے ؟ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ جی بالکل مریم نواز نے آمدن سے زائد اثاثے بنائے۔ نائن اے فائیو کے تحت پبلک آفس ہولڈر کے ساتھ مل کر اثاثے چھپانے کی سازش کرنے والے ملزم کو بھی سزا سنائی جاسکتی ہے۔
جب جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں سے کوئی ایک نکتہ بتا دیں جس سے نواز شریف کا لندن فلیٹس سے تعلق ظاہر ہوتا ہو ؟ تو نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ بدھ کو عدالت میں تمام تفصیلات پر مشتمل چارٹ پیش کردیں گے جس سے عدالت کے سامنے صورتحال واضح ہوجائے گی۔ نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ ان کی اوپن ہارٹ سرجری ہوئی ہے اس لیے وہ زیادہ دیر کھڑے نہیں رہ سکتے، عدالت سماعت کل تک ملتوی کردے۔عدالت نے استدعا منظور کرتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ بدھ کو زبانی دلائل مکمل نہ کیے تو تحریری دلائل کی بنیاد پر فیصلہ سنا دیں گے۔
اس سے پہلے سماعت کے آغاز پر نیب پراسیکیوٹر نے درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ سنانے کی استدعا کی تو جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ قریشی صاحب اپنی کمٹ منٹ کے مطابق کیس کے میرٹس پر دلائل دیں۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ جب عدالت کی طرف سے ایسے ریمارکس آتے ہیں تو میڈیا میں کئی طرح کی باتیں کی جاتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جسٹس اطہر من اللہ وکلا تحریک کا حصہ اور نواز شریف کے قریب رہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ وکلا تحریک میں تو وزیراعظم کے بھی قریب رہا لیکن اس کے بعد کسی کا حصہ نہیں رہا۔ قریشی صاحب کیا آپ مجھ پر عدم اعتماد کا اظہار کررہے ہیں ؟ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ میں بطور وکیل ایسا نہیں کہہ سکتا۔
نیب پراسیکیوٹر نے سماعت کے آغاز میں دلائل کے دوران یہ بھی کہا کہ میری عرض ہے کہ کیس قابل سماعت ہونے پر فیصلہ کر لیا جائے ، جسٹس گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ قریشی صاحب آپ دلائل کا آغاز کریں جو آپ نے عدالت سے طے کیا تھا، اگر آپ شروع نہیں کریں گے تو یہ سمجھیں گے کہ آپ پیچھے ہٹ رہے ہیں، نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ میں بطور وکیل بہت ساری باتیں نہیں کہہ سکتا لیکن ایسی باتیں چل رہی ہیں، فاضل ججز کے نواز شریف کے ساتھ تعلقات سامنے لائے جاتے ہیں، جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ آپ کس کے بارے میں بات کر رہے ہیں، پراسیکیوٹر نے کہا کہ عدالت کے بارے میں ایسی باتیں چل رہی ہیں کہ آپ وکلا تحریک میں بھی تھے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا آپ میرے غیر جانبدار ہونے پر سوال اٹھا رہے ہیں، میں وکلا تحریک میں بھی رہا لیکن وہ قانون کی حکمرانی کے لیے تھا، میرے فیصلے اٹھا کر دیکھ لیں، فیصلہ کرتے ہوئے ہمیں کوئی پرواہ نہیں ہو گی، ہم نے اسی لیے پہلے پوچھا تھا کہ فریقین کو عدالت پر اعتماد ہے، جسٹس گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ہمارا ایک ہی موقف ہے کہ قانون کے مطابق فیصلہ کرنا، عدالت نے پراسیکیوٹر نیب کو آج بدھ کے روز دلائل مکمل کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی اور ہدایت کی کہ اگر آج دلائل مکمل نہ کیے تو عدالت تحریری دلائل پر فیصلہ سنا دے گی۔