اسلام آباد: (دنیا نیوز) اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایون فیلڈ ریفرنس میں سزاؤں کے خلاف اپیلوں پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ سزا بے نامی دار پر ہوئی، زیر کفالت کے معاملے پر نہیں، مفروضے کی بنیاد پر کرینمل سزا برقرار نہیں رہ سکتی، ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو دیکھنا ہوگا۔
جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل بینچ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں سزاؤں کیخلاف اپیلوں کی سماعت کی۔ نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ریکارڈر پر واجد ضیاء کا بیان نہیں دیکھا جس میں انھوں نے ایون فیلڈ کی ملکیت بتائی ہو۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ اگر ملکیت نہ بتائی گئی ہو تو پھر نتائج کیا ہوں گے؟۔
خواجہ حارث نے کہا کہ جب معلوم ذرائع کا ہی علم نہ ہو تو تضاد بھی معلوم نہیں کیا جاسکتا۔ سپریم کورٹ میں متفرق درخواستیں نوازشریف نے جمع نہیں کرائی تھیں۔ عدالتی فیصلے میں بھی نواز شریف کی ملکیت کا کہیں ذکر نہیں۔ اگر جائیداد کی قیمت نہیں لکھی گئی تو نتیجہ کیسے نکالا جا سکتا ہے۔ معلوم ذرائع آمدن اور فلیٹس کی قیمت بتائے بغیر کہا گیا کیہ اثاثے آمدن سے زائد ہیں۔ گواہوں کے بیانات موجود ہیں لیکن کسی نے بھی فلیٹس کی اصل قیمت نہیں بتائی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ نے بھی اپنے فیصلے میں فلیٹس کی قیمت پتہ کرنے کا نہیں کہا تھا۔ خواجہ حارث نے کہا کہ یہ درست ہے کہ سپریم کورٹ نے حکم نہیں دیا مگر جب اس چیز کا نتیجہ نکالنا ہو کہ اثاثے آمدن سے زیادہ ہیں یا نہیں تب تو فلیٹس کی قیمت معلوم کرنا ہوگی کیونکہ معلوم ذرائع آمدن اور جائیداد کی قیمت کو رقم میں تبدیل کرنا ہوتا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ مشترکہ خاندانی نظام میں بچے فلیٹس میں رہائش پذیر ہوں تو نیب کو بتانا پڑے گا وہ کس کے زیر کفالت تھے، یہ سوال اہم ہے کہ بچے داد کے زیر کفالت تھے یا اپنے والد کے؟۔
اسپیشل پراسیکیورٹر نیب اکرم قریشی نے لقمہ دیا کہ اسلامی قوانین میں بھی اس سے متعلق اصول وضع کیا گیا ہے، ابھی عدالت نے ایک طرف کے دلائل سنے ہیں۔ نیب اپنے دلائل میں عدالت کو لازمی مطمئن کرے گا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ آپ اپنی باری آنے پر قوانین سے متعلق بتا دیجئے گا، احتساب عدالت نے تو مفروضے کی بنیاد پر کہا کہ بچے والد کے زیر کفالت ہیں۔
خواجہ حارث نے دلائل دیئے کہ احتساب عدالت کے فیصلے میں بھی نواز شریف کی ملکیت کا ذکر نہیں ہے۔ بینچ نے استفسار کیا کہ کیا بے نامی دار کی فائنڈنگ فیصلے میں آئی ہے ؟ اور جب سے نیب قانون بنا ہے کیا کسی زیرکفالت کو بھی سزا ہوئی ؟ کیا تمام درخواست گزاروں کا یہی موقف ہے کہ جائیداد سیٹلمنٹ میاں شریف نے کی اور پھر پوتوں کے نام منتقل کی۔ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ نوازشریف کا یہ موقف ہے کہ انھیں نہیں معلوم کہ فلیٹس کا کون مالک ہے اور کون ٹرسٹی۔ انہوں نے اس بارے سنا ہے دیکھا نہیں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا کوئی ایسا دستاویز ہے جو فلیٹس کی ملکیت نواز شریف کی ظاہر کرے۔ وکیل صفائی نے کہا کہ پراسیکیوشن، گواہوں، واجد ضیاء یا تفتیشی کسی نے بھی ایسی دستاویز پیش نہیں کی۔ عدالت نے پوچھا کہ کیا فرد جرم میں بے نامی دار کا ذکر ہے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ فرد جرم اور سزا میں واضح تضاد ہے۔ فرد جرم میں سب کو برابر کا ملزم قرار دیا گیا تھا۔ مگر جہاں بھی پراپرٹیز کا ذکر ہے وہاں بیٹوں کا نام ہے نواز شریف کا نہیں۔ ٹرائل کورٹ نے فیصلے میں لکھا کہ عموما بچے والدین کی زیر کفالت ہوتے ہیں اس لیے نواز شریف مالک ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ بچے تو اپنے دادا کے زیر کفالت بھی ہو سکتے ہیں۔ نواز شریف خود بھی میاں شریف کے زیرکفالت ہو سکتے تھے۔ کیا کوئی ایسا ثبوت پیش کیا گیا کہ بچے نواز شریف کے زیر کفالت تھے میاں شریف کے نہیں۔ خواجہ حارث نے بتایا کہ ایسا کوئی ثبوت یا دستاویز موجود نہیں۔ واجد ضیاء خود بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ایسا کوئی دستاویز یا ثبوت نہیں۔ عدالتی فیصلے میں ایک سے زیادہ چیزیں مفروضوں پر مبنی ہیں۔
عدالت نے کیس کی سماعت جمعرات کی دوپہر ساڑھے بارہ بجے تک ملتوی کردی۔ عدالت نے نیب پراسیکیوٹر کو ہدایت کی کہ دلائل جمعرات کو شروع کر کے پیر تک مکمل کرلئے جائیں۔