لاہور: (دنیا نیوز) مسلم لیگ ن نے کہا ہے کہ وزیراعظم نے شرمندگی کو خوشخبری کہہ کر سنایا، کرپشن کے خلاف جنگ کا آغاز اپنی صفوں سے کریں۔ ادھر سندھ حکومت کے ترجمان نے بھی وزیراعظم کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
سابق وزیر خارجہ خواجہ آصف کا دنیا نیوز سے خصوصی گفتگو میں کہنا تھا کہ قرضے کے ساتھ ثالثی کے کیا معنی ہیں؟ پاکستان اس وقت حساس صورتحال سے دوچار ہے، مشرق وسطیٰ کے کسی بحران میں فریق نہیں بننا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کرپشن کے خلاف جنگ کا آغاز اپنی صفوں سے کریں، جنہیں چور، ڈاکو اور قبضہ گروپ قرار دیتے رہے وہ ان کی حکومت میں شامل ہیں۔
خواجہ آصف نے کہا کہ وزیراعظم کے چہرے کا غصہ ظاہر کر رہا ہے کہ وہ انتقام کی آگ میں جل رہے ہیں، اپوزیشن پر الزم تراشی کی بجائے حقائق سے کام لیں، ماضی کی حکومت پر ملبہ ڈالنے کی بجائے بتائیں کہ آپ نے اب تک کیا کیا ؟ کہاں گیا وہ 100دن کا ایجنڈا جو خواب بن گیا، نئے پاکستان کے دعوؤں کے ساتھ عوام کو مہنگائی کے طوفان میں پھنسا دیا گیا، یہ کیسی حکومت ہے کہ عوام جھولیاں اٹھا کر بد دعائیں دینے پر مجبور ہے، روزگار دلانے کے دعوؤں کے ساتھ قوم بے روزگاری کا شکار بن گئی۔
وزیراعظم کے خطاب پر ترجمان سندھ حکومت مرتضیٰ وہاب نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ قوم بار بار خطاب نہیں مہنگائی اور بیروزگاری سے چھٹکارا مانگ رہی ہے۔ عمران خان باتوں کے پہاڑ کھڑے کرنے کے بجائے بجلی گیس کی قیمتوں میں اضافہ واپس لیں، 10 روپے میں ملنے والی روٹی آج 15 کی ہو گئی ہے۔
مرتضی وہاب نے کہا کہ عمران خان قوم کو یہ بھی بتائیں کہ خیبر پختونخوا نے 5 سال میں کتنے قرضے لیے؟ پاکستان کے تنخواہ دار طبقے کی پچھلے دو ماہ میں قوت خرید دم توڑ گئی ہے۔ کیا پشاور میٹرو بیرونی قرضے لے کر نہیں بنائی جا رہی ہے؟
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے پاس ویژن ہی نہیں جو پاکستان کو قرضوں سے نجات دلا سکے۔ وہ اپنی ناکامیوں کے ذمہ داری بھی اپوزیشن پر ڈال رہے ہیں۔ عمران خان کرپٹ لوگوں کو جیل میں ڈالنا چاہتے ہیں تو عبدالعلیم خان اور جہانگیر ترین سے ابتداء ہونی چاہے۔
انہوں نے کہا کہ عمران منی لانڈرنگ کی بات کرتے ہیں مگر جہانگیر ترین کو بھول جاتے ہیں۔ پنجاب میں آئی جی کو کیوں فارغ کیا گیا قوم حقائق جانا چاہتی ہے۔ باتوں سے 50 لاکھ گھر بنانے والے وزیراعظم لوگوں سے چھتیں بھی چھینے کا پروگرام رکھتے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پی پی پی دور میں سیلاب آئے اور تیل کی قیمتیں بھی دگنی تھیں، مگر ایسا مہنگائی کا طوفان نہ تھا۔