لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) مسلم لیگ ن کے قائد سابق وزیراعظم نواز شریف اگلے ایک دو روز میں ملک کو در پیش اہم ایشوز، حکومت کی اب تک کی کارکردگی سمیت بعض اقدامات پر کھل کر اظہار خیال کریں گے۔ اب تک انہوں نے ایشوز پر رد عمل اور قومی مسائل پر تحفظات کا اظہار کیوں نہیں کیا اور قومی سیاست کے حوالے سے بے اعتنائی کیو ں برتی اور خاموشی کا روزہ کیوں رکھ چھوڑا ؟۔
اس حوالے سے جاتی امرا کے اہم ذرائع بتا رہے ہیں کہ ابھی تک نواز شریف اپنی اہلیہ کلثوم نواز کی وفات کے دکھ اور غم سے باہر نہیں نکلے اور کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ نواز شریف، مریم نواز، کلثوم نواز کی بہن اور بہنوئی بیگم کلثوم نواز کی قبر پر نہ جاتے ہوں اور خصوصاً مریم نواز اب بھی اپنی والدہ کی قبر پر جا کر روتی نظر آتی ہیں۔ جس کے خود ان کے والد نواز شریف پر اثرات بہت زیادہ ہیں اور بیگم کلثوم نواز کی قبر پر ہی نواز شریف اپنے ایک عزیز سے یہ کہتے سنائی دئیے کہ جب میں اپنی بیٹی کو ماں کی قبر پر روتے دیکھتا ہوں تو میرا کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ میں اپنی شریک حیات کی عیادت بھی نہ کر سکا ،میں اپنے والد محترم کے جنازہ کو کاندھا ہی نہ دے سکا اور یہ کہ اس سیاست کی وجہ سے میری بیٹی کو میرے ساتھ جیل جانا پڑا اور یہ سب کچھ سیاست کی وجہ سے ہے اور کچھ نہیں، میں نے اس سیاست کے لیے قربانیوں کی تاریخ رقم کی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ سیاست جرم نہیں بننی چاہئے۔
نواز شریف کی جانب سے قومی ایشوز کے حوالے سے کوئی رد عمل نہ دیئے جانے پر جب ان کی جماعت کے بعض ذمہ داران نے بعض صحافیوں کے سوالات کے جوابات نہ دئیے جانے پر استفسار کیا تو ان کا کہنا تھا کہ آج اگر میں عدالتوں کا سامنا کر رہا ہوں تو یہ سب بھی سیاست اور سیاسی عمل کا حصہ ہی ہے اور یہ سب کچھ سیاست کی وجہ سے ہی ہوا ہے جس پر ان کے قریبی رفقاء نے جب یہ کہا کہ اس کا مطلب سیاسی محاذ پر کچھ اور لیا جا رہا ہے جس پر نواز شریف نے کہا کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ مجھے کچھ بولنا چاہئے تو میرے پاس قوم سے کہنے کیلئے بہت کچھ ہے اور مجھے اس حوالے سے کوئی پابند نہیں بنا سکتا، جو شخص اپنی اہلیہ کو بستر مرگ پر چھوڑ کر جیل جانے کیلئے وطن واپس آ جائے اس سے یہ توقع نہیں کی جانی چاہئے کہ وہ کسی مصلحت کا شکار ہو کر خاموشی اختیار کر لے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ مصیبتیں اور پریشانیاں کسی کو جھکانے کیلئے نہیں بلکہ جگانے کیلئے آتی ہیں۔ لہٰذا میرا قومی اور سیاسی کردار جلد سامنے آ جائے گا۔
لہٰذا محسوس کیا جا رہا ہے کہ نواز شریف کی جانب سے اب تک اختیار کی جانے والی خاموشی کو خود مسلم لیگ ن کے حلقوں میں بھی محسوس کیا جا نے لگا تھا اور سابق وزیراعظم کے ساتھ عدالتوں میں جانے والے ان کے رفقا نے بھی صحافیوں کے سوالات کے جوابات نہ آنے کے عمل پر چہ میگوئیاں شروع کر دی تھیں۔ نواز شریف کی سیاست کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو انہوں نے کڑے سے کڑے وقت میں بھی کبھی اتنی خاموشی اختیار نہیں کی تھی جو اب محسوس کی جا رہی ہے ۔ اس کی بڑی وجہ یہی سمجھ آتی ہے کہ قومی سیاست میں متحرک اور فعال کردار ادا کرنے والے نواز شریف کے پیچھے ان کی اہلیہ کلثوم نواز موجود تھیں ۔اپنی عدالتی نا اہلی اور مقدمات کے عمل کے ساتھ ساتھ ان کی بیماری میں ان پر بھرپور توجہ نہ دئیے جانے کے باعث نواز شریف کے اندر پائے جانے والے احساس نے انہیں سخت پریشان کر رکھا ہے جس کی وجہ سے انہوں نے خاموشی اختیار کئے رکھی لیکن اب ایسے محسوس ہو رہا ہے کہ اگر وہ دکھ’ غم اور اس احساس سے باہر نکلیں گے تو ایک مرتبہ پھر قومی سیاست میں ان کا کردار واضح ہوگا لیکن ان کی جانب سے نئے حالات میں آنے والا رد عمل کیسا ہوگا ؟ جلد کھل کر سامنے آ جائے گا۔