لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) آسیہ بی بی کی بریت کے ردعمل میں توڑ پھوڑ اور گھیراؤ جلاؤ پر چیف جسٹس نے ازخود نوٹس لیا ہے جس کے بعد یہ امید اور توقع پیدا ہوئی ہے کہ ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے، قانون کو ہاتھ میں لینے، عوام کی گاڑیوں، موٹر سائیکلوں کو جلانے اور قومی املاک کو نقصان پہنچانے کے مرتکب عناصر کو سزا مل سکے گی۔ لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ آخر سلگتے ایشوز پر عدالت ہی نوٹس کیوں لیتی ہے ۔ حکومت ریاست کی رٹ پر اثر انداز ہونے والوں کے خلاف کیوں حرکت میں نہیں آتی؟۔ پاکستان میں قانون شکنی اور شدت پسندی کا رحجان کیوں تقویت پکڑتا رہا ؟۔
امن و امان کے ذمہ دار ادارے شرپسندوں کے خلاف خود حرکت میں نہیں آئے، کیا ایک نیو کلیئر پاور کی حیثیت سے ہمیں اپنی ذمہ داریوں کا ادراک نہیں؟ جہاں تک ریاستی رٹ کا سوال ہے تو ماضی میں حکومتی اداروں کے اندر سیاسی وابستگی کے عمل نے نہ صرف ان اداروں کی افادیت دھندلا دی بلکہ اداروں کی ساکھ کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا خصوصاً پولیس جیسے اہم شعبہ میں سیاسی مداخلت اور ریاست کے بجائے حکومتوں کیلئے استعمال ہونے کے عمل نے اس ادارے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہ، دنیا بھر میں پولیس کے محکمہ کی اہمیت اور حیثیت کے پیش نظر اس امر کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ اس ادارے کو اپنے سیاسی اور ذاتی مفادات کیلئے استعمال کیا جاسکے لیکن پاکستان کے اندر نہ صرف یہ کہ پولیس کے اندر سیاسی بھرتیوں کی بھر مار رہی بلکہ حکومتوں نے اسے اپنے اپنے مفادات کیلئے استعمال کیا، سیاسی مخالفین کو دیوار سے لگانے کیلئے پولیس کا سہارا لیا گیا اور خصوصاً اس کو اپنے اصل مقاصد سے ہٹا دیا گیا ۔یہی وجہ ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن سمیت بعض اہم واقعات میں پولیس افسران کی سرزنش نے پولیس کے اندر مایوسی اور بے یقینی کی کیفیت طاری کر دی۔
یہی حال سول سروس کا ہے کہ ان اداروں نے ریاست کے مفادات کو دیکھنے کے بجائے حکومتوں اور حکمرانوں کے مفادات دیکھتے دیکھتے اپنی ساکھ گنوا دی۔ مشینری اور پولیس فورس اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی سے گریزاں نظر آئی کہ خود انہیں ریاست اور حکومت کی آشیرباد حاصل نہیں ہوئی اور حالات یہاں تک آپہنچے ہیں کہ اب معاشرے کے اندر عدل و انصاف کے عمل اور اہم ایشوز پر عوام الناس حکومت اور اس کے اداروں کے بجائے خود عدلیہ کی جانب دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انہیں انصاف یہاں سے مل سکتا ہے اور پاکستان کی عدلیہ خصوصاً چیف جسٹس ثاقب نثار کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے ملک کو درپیش سلگتے مسائل خصوصاً پانی کے بحران، صحت، تعلیم کی صورتحال، گورننس کے معاملات میں ہونے والی بدانتظامی پر توجہ دی اور حکومتی اداروں کے اندر جواب دہی کا احساس عام ہوا ہے۔
اب بھی مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی بریت کے فیصلہ کے ردعمل میں ہونے والے واقعات نے خود ریاست کے آگے ایک سوالیہ نشان کھڑا کر دیا اور وزیراعظم عمران خان جو ریاستی رٹ کیلئے ممکنہ اقدامات کا عزم ظاہر کرتے نظر آرہے تھے، تین روز بعد ان کی حکومت ان واقعات کے ذمہ داران کے ساتھ ایک معاہدے میں بندھی نظر آئی اور اس معاہدے پر اندرون و بیرون ملک سے آنے والے ردعمل نے بہت سے سوالات کھڑے کر دئیے اور عوام الناس یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ اگر چند سو یا چند درجن لوگ سڑکوں پر آکر قانون کو ہاتھ میں لے لیتے ہیں اور ریاستی ادارے نظر نہیں آتے تو پھر ریاست اور حکومت کا کیا جواز ہے ؟ یہی وجہ ہے کہ اس حوالے سے پیدا شدہ نفسیاتی کیفیت میں چیف جسٹس نے اس صورتحال کا نوٹس لیا اور قوی امکان ہے کہ قانون پر اثر انداز ہونے والے قانون کے شکنجے میں آئیں گے۔
جہاں تک اس امر کا سوال ہے کہ ریاست کی رٹ پر اثر انداز ہونے والوں کے خلاف ریاست حرکت میں کیوں نہیں آئی یہ بہت دکھ بھری داستان ہے اور معاشرے میں شدت پسندی اور انتہا پسندی نے بھی اس لئے اپنی جڑیں بنائیں کہ حکومتوں نے مصلحتوں سے کام لیا۔ اداروں کو مصلحتوں کے تابع بنا دیا گیا اور یہی وجہ بنی کہ یہاں انتہا پسند اور شدت پسند جتھے بھی بناتے رہے ۔ سڑکیں بھی بلاک کرتے رہے اور انہیں تحفظ بھی ملتا رہا ، یہی وہ رجحان ہے جس کے باعث پاکستان کی دنیا بھر میں بدنامی ہوئی اور پاکستان پر بہت سا دباؤ بھی آیا۔ ادارے حکومتوں کی طرف دیکھتے رہے اور حکومتوں کو ریاست کے مفادات سے زیادہ اپنے مفادات عزیز رہے ۔ جس کی بناء پر ہم اس نہج پر پہنچے کہ حکومتیں انتہا پسندی اور شدت پسندی کے رجحانات کے سامنے بے بس نظر آئیں۔
تحریک انصاف کی حکومت سے ملک میں گورننس کے حوالے سے بہت سی توقعات تھیں لیکن ڈی پی او پاکپتن سے روا رکھے جانے والے سلوک ’ چکوال اور راجن پور کے ڈی سی او پر آنے والے دباؤ اور پنجاب میں تین ماہ میں تیسرے آئی جی کی تقرری سمیت بعض واقعات نے انتظامی مشینری میں مایوسی اور بے یقینی کو انتہا پر پہنچا دیا جو ملکی سلامتی اور ریاست کے حوالے سے خطرناک ہے اور اگر اس حوالے سے فوری طور پر حکومت کی جانب سے ان اداروں کے اعتماد کی بحالی کے لیے اقدامات نہ ہوئے تو مستقبل میں بھی ایسے واقعات کے رونما ہونے کا احتمال رہے گا۔ قطع نظر اس امر کے کہ پاکستان میں کس کی حکومت ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاستی اداروں کو آئین پاکستان کے تحت اپنے مقاصد تک محدود رکھنے اور اس حوالے سے جوابدہی کیلئے اقدامات ہونے چاہئیں۔ خصوصاً انتظامی مشینری اور پولیس کو ہر طرح کی سیاسی مداخلت اور دباؤ سے آزاد کر کے مطلوبہ نتائج کی فراہمی کا ذمہ دار بنایا جائے۔
اداروں کی مضبوطی اور کارکردگی بھی حکومتوں کی مضبوطی کا باعث بن سکتی ہے ۔ آسیہ بی بی کی بریت کے فیصلہ کے نتیجہ میں ملک میں پیدا شدہ صورتحال پر ایک کمیشن ضرور بننا چاہئے کہ فیصلہ پر رد عمل کے طور پر رونما ہونے والے واقعات میں کون کون کس کس طرح ملوث تھا اور ان واقعات کے تدارک کے لیے حکومتی ادارے کہاں تھے ؟ کیا کرتے رہے ؟ ۔ انہی واقعات کوبنیاد بنا کر کیس آگے بڑھایا جائے تو مستقبل میں کوئی قانون کو ہاتھ میں نہیں لے گا اور نہ ہی حکومتی اداروں کا کردار خاموش تماشائی کا ہوگا ۔جب حکومتیں آئین کے تحت چلیں گی اور ادارے قانون کی سالمیت پر عمل پیرا ہوں گے تو پاکستان امن و امان کا گہوارا بنے گا۔ یہاں سیاسی و اقتصادی استحکام بھی قائم ہوگا، بیرونِ ملک سے پاکستان پر دباؤ کا سلسلہ بھی بند ہو جائے گا اور سیاسی و مذہبی جماعتوں اور اہم طبقات کے اندر قانون شکنوں اور انتہا پسندوں کو بھی جرأت نہیں ہوگی کہ وہ امن عامہ سے کھیل سکیں۔