اسلام آباد: (دنیا نیوز) سابق وزیراعظم نواز شریف نے العزیزیہ ریفرنس میں صفائی کا بیان قلمبند کرانا شروع کر دیا۔ پہلے روز 50 عدالتی سوالات میں سے 45 کے جواب ریکارڈ کرا دیئے۔ باقی سوالات پر وکیل خواجہ حارث سے مشاورت کے لیے وقت مانگ لیا۔
احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے العزیزیہ ریفرنس کی سماعت کی۔ سابق وزیراعظم نواز شریف عدالت میں پیش ہوئے اور روسٹرم پر جا کر سیکشن 342 کے تحت بیان صفائی قلمبند کرانا شروع کیا۔ اس موقع پر مسلم لیگ ن کے دیگر رہنما بھی روسٹرم کے قریب آکر کھرے ہوگئے۔ آغاز پر عدالت نے ملزم نواز شریف سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے استغاثہ کے شواہد کو دیکھ، سن اور سمجھ لیا۔ جس پر نواز شریف نے کہا جی ہاں، میں نے سارے شواہد دیکھ لیے ہیں۔
بیان شروع ہونے سے پہلے نواز شریف کے وکیل نے عدالت سے چند سوالوں میں درستگی کی استدعا کی۔ وکیل زبیر خالد نے کہا کہ مخلوط اور مفروضوں پر مبنی سوالات کو سوال نامے کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا، 3، 3 سوالوں کو ملا کر ایک سوال بنایا گیا ہے۔ جج محمد ارشد ملک نے کہا کہ یہ کوئی مسئلہ نہیں، اگر الگ الگ کر کے تحریر کئے جاتے تو اس طرح 200 سوال بن جاتے۔
سابق وزیراعظم نواز شریف نے بیان ریکارڈ کراتے ہوئے کہا کہ وہ تین بار ملک کے وزیراعظم رہ چکے ہیں، پرویز مشرف کے 12 اکتوبر 1999 کو مارشل لاء لگایا، تب سے مئی 2013 تک کسی عوامی عہدے پر نہیں رہا۔ 2001 سے 2008 تک جلا وطن رہا۔ عدالتی سوال پر نواز شریف نے کہا کہ یہ تفتیشی افسر کی رائے ہے کہ میں شریف خاندان کا سب سے بااثر شخص تھا، میرے والد میاں شریف آخری سانس تک اپنے خاندان کے سب سے بااثر شخص تھے، یہ درست ہے کہ عدالت میں ٹیکس ریٹرنز، ویلتھ اسٹیٹمنٹس اور ویلتھ ٹیکس ریٹرن میں نے ہی جمع کرائے تھے، حسین نواز کی جانب سے جمع کرائے گئے ٹیکس سے متعلق موقف کا جواب دینے کا مجاز نہیں۔
اسی دوران خواجہ حارث کے معاون وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ نواز شریف کو بیٹھنے کی اجازت دے دی جائے، ان کی طرف سے جوابات وکلاء تحریر کرا دیتے ہیں۔ جج ارشد ملک نے نواز شریف کو بیٹھنے کی اجازت دیتے ہوئے ان سے جواب کی کاپی لے لی اور کہا کہ جواب پڑھ لیتا ہوں، کوئی بات سمجھ نہیں آئی تو پوچھ لوں گا۔ اس طرح عدالت نے 50 میں سے 45 سوالات پر نواز شریف کے جوابات قلمبند کرلئے۔
نواز شریف نے استدعا کی کہ کچھ وقت دیا جائے کیونکہ وہ باقی 5 سوالوں کے جواب اپنے وکیل خواجہ حارث سے مشاورت کے بعد دینا چاہتے ہیں، کچھ سوالات پیچیدہ بھی ہیں جن کے جواب کے لیے ریکارڈ دیکھنا پڑے گا۔ جج ارشد ملک نے کہا کہ جن سوالات کے جواب اطمینان بخش نہ ہوئے تو اس پر مزید سوالات پوچھوں گا، اگر کوئی تشنگی باقی رہ گئی تو وہ بھی بعد میں پوچھ لیں گے۔