حکومت ایس پی داوڑ کی شہادت ہضم کرنے کیلئے تیار نہیں

Last Updated On 16 November,2018 09:10 am

لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) پاکستان کی جانب سے ایس پی طاہر داوڑ کی شہادت کے عمل پر افغانستان سے سفارتی سطح پر جواب مانگنے کا اعلان اور خصوصاً وزیراعظم عمران خان کی جانب سے بیان اور خصوصی اجلاس ظاہر کر رہا ہے کہ حکومت اس شہادت کو ہضم کرنے کیلئے تیار نہیں اور اس حوالے سے سنجیدہ تحقیقات اور اقدامات چاہتی ہے لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ طاہر داوڑ کون تھے انہیں اغوا کیونکر کیا گیا ان کے قتل کی وجوہات کیا ہیں، اس کیلئے افغان سر زمین کے استعمال کا کیا مطلب اور کیا مقصد ہے۔

طاہر داوڑ کے اغوا کے بعد ریاست نے اس عمل پر کیسی سنجیدگی ظاہر کی ؟ طاہر داوڑ کے اغوا کے بعد ان کی بازیابی کیلئے حکومتی کوششوں اور ان میں سنجیدگی کا اندازا حکومتی ترجمان افتخار درانی کے ایک بیان سے لگایا جا سکتا ہے جو انہوں نے وائس آف امریکہ کو انٹرویو میں دیا اور کہا کہ ایسا تاثر دیا جا رہا ہے کہ وہ اغوا ہو گئے ایسا نہیں ہوا، ان کے ٹیلی فون کی تلاش سے ایسا اندازا لگایا گیا اور ان کے اہل خانہ پریشان ہو گئے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ اغوا نہیں ہوئے، وہ فاٹا میں اپنی پیشہ ورانہ ڈیوٹی پر موجود ہیں۔ ایس پی طاہر داوڑ کا نام ایک فرض شناس پولیس افسر کے طور پر دہشت گردی کے خاتمہ میں اپنے کردار کے حوالے سے غیر معمولی تھا اور یہی وجہ تھی کہ ان پر ماضی میں دہشت گردوں کی جانب سے قاتلانہ حملے بھی ہوئے۔ دہشت گردی کے خلاف ان کے کردار پر انہیں قائداعظم گولڈ میڈل سے بھی نوازا گیا۔

اغوا ہونے سے دو ماہ قبل ڈی ایس پی سے ترقی پا کر ایس پی رورل کے عہدے پر فائز ہوئے۔ طاہر داوڑ کا اسلام آباد سے اغوا اور افغانستان میں منتقلی کا عمل اور وہاں ان کا سفاکانہ قتل بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے اور بڑے سوال کے طور پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ آخر کیا وجہ تھی کہ طاہر داوڑ کی لاش پاکستان کے حوالے کرنے کے عمل میں بھی افغان انتظامیہ کا طرز عمل پاکستان و انسان دشمنی پر مبنی تھا۔ طاہر داوڑ کے حوالے سے یہ خبریں عام تھیں کہ انہوں نے پی ٹی ایم کی سرگرمیوں کے توڑ میں نمایاں کردار ادا کیا اور خصوصاً دہشت گردی کے سدباب کیلئے انہوں نے دہشت گردی کے متعدد نیٹ ورک بھی توڑے اور خصوصاً داعش کے حوالے سے وہ الرٹ رہے کہ پاکستان میں انہیں کسی کردار کیلئے ماحول نہیں ملنا چاہیے۔ 26 اکتوبر کو ان کے اسلام آباد سے اغوا کے بعد انہیں میانوالی اور بنوں کے راستے افغانستان لے جایا گیا اس حوالے سے یہ بات اہم ہے کہ اسلام آباد کی سکیورٹی کے ضمن میں سابق حکومت کا مؤقف تھا کہ اسے ہر حوالے سے محفوظ بنانے کیلئے سی سی یو کیمروں کا منظم سسٹم موجود ہے لیکن اب جبکہ ایک ایس پی سطح کے افسر کو اس کے گھر کے باہر سے اغوا کر کے مختلف اہم شاہرائوں کے ذریعہ افغانستان تک جا پہنچایا گیا تو آخر یہ سارا سکیورٹی سسٹم اور کیمرے کیونکر دھرے کے دھرے رہ گئے۔

وفاقی وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی نے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ 600 کے قریب کیمرے کام نہیں کر رہے تھے جہاں سے حکومتی اہلیت اور خصوصاً وزارت داخلہ کے کردار کا جائزہ لیا جا سکتا ہے کہ وہ کس حد تک مؤثر اور نتیجہ خیز ہے۔ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کا اپنی ٹویٹ کے ذریعے یہ کہنا کہ ان کے اغوا اور ان کے افغانستان لے جانے کے عمل میں دہشت گرد تنظیموں کا کوئی کردار نہیں بہت اہم ہے اور لگتا یوں ہے کہ پاکستان اور خصوصاً وزیرستان کے علاقوں میں دہشت گردی اور ان کے نیٹ ورک ٹوٹنے کے عمل نے سرحد پار پریشانی پیدا کر رکھی ہے اسی لئے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے طاہر داوڑ کو راستے سے ہٹایا گیا۔ طاہر داوڑ کا اغوا، پھر افغانستان لے جانا اور افغانستان میں ان کا قتل ایک منظم سلسلہ کی کڑی ہے۔ اس سازش کو بے نقاب کرنا صرف پاکستان کی ہی نہیں افغانستان کی بھی ذمہ داری ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ بہادر اور جری پولیس آفیسرکی شہادت کے عمل پر صرف مذمت پر اکتفا کرنے کے بجائے افغان انتظامیہ کو باور کرایا جائے کہ پاکستان کی نیک نیتی اور امن کیلئے اقدامات کو کمزوری نہ سمجھا جائے اور افغان سر زمین سے پاکستان اور پاکستانیوں کے خلاف سازش اور دہشت گردی کا سلسلہ بند ہونا چاہیے ورنہ پاکستان افغانستان بارے اپنی پالیسی پر نظر ثانی پر مجبور ہوگا۔ ہم اپنی سر زمین پر دہشت گردی برداشت نہیں کریں گے۔