لاہور: ( روزنامہ دنیا) تحریک انصاف کے اندرونی اختلافات حکمران اتحاد کے گلے پڑ گئے ہیں۔ پی ٹی آئی کو ق لیگ کے اراکین نے دھوکا دیا یا پھر اپنے ہی اراکین باغی ہو گئے، اس پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا۔
عام انتخابات کے بعد سے اب تک مجموعی طور پر تحریک انصاف کا گراف ڈاؤن ہوتا جا رہا ہے اس کا ثبوت یہ بھی ہے کہ 16 اکتوبر کو حکمران اتحاد سے سپیکر کے امیدوار چودھری پرویز الٰہی کو اپنی عددی برتری سے 12 ووٹ زیادہ ملے تھے اور اس روز صرف 2 ووٹ مسترد ہوئے تھے پھر جب 19 اکتوبر کو وزیر اعلیٰ پنجاب کے لئے اسمبلی میں الیکشن ہوا تو اس روز کوئی ووٹ مسترد نہ ہوا اور تین اکتوبر کو ہونے والے سینیٹ الیکشن میں تحریک انصاف کے امیدوار ڈاکٹر وسیم شہزاد کو اپنی عددی برتری سے تین ووٹ کم ملے اس روز صرف ایک ووٹ مسترد ہوا۔
گزشتہ روز سینیٹ کی دو نشستوں پر الیکشن ہوا تو تحریک انصاف کو اپنی عددی برتری سے مجموعی طور پر 5 ووٹ کم ملے جبکہ جنرل سیٹ پر 9 اور خواتین کی نشست پر 7 ووٹ مسترد بھی ہوئے۔ اتنی زیاد ہ تعداد میں ووٹ مسترد ہونا بھی حیران کن ہے، یہ ووٹ غیر دانستہ یا دانستہ طور پرمسترد ہوئے دونوں صورتوں میں اس کا زیادہ نقصان حکمران اتحاد کو ہی ہوا۔ اس سے عیاں ہے کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کے لیے خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے اور اسے ابھی سے حکومت کو سنجیدگی سے لینا چاہیے، ایسے لگتا ہے کہ سینیٹ کی 2 نشستوں پر ضمنی الیکشن، سپیکر کے الیکشن کا اب مسلم لیگ ن کے حق میں ایکشن ری پلے ثابت ہور ہا ہے۔
ق لیگ کے 10 ارکان کی حمایت کے ساتھ حکمران اتحاد کے ووٹ 190 تھے۔ نون لیگ کو ممکنہ تعداد سے 4 ووٹ زیادہ ملے، تحریک انصاف کو ایک راہ حق پارٹی اور دو آزاد ارکان کی حمایت کی بھی امید تھی مگر حکمران اتحاد اپنی عددی برتری کو قائم نہ رکھ سکا۔ تحریک انصاف کا ایک رکن اویس دریشک عمرے پر اور مسلم لیگ ن کا ایک رکن سہیل شوکت بٹ بیرون ملک ہونے کے باعث ووٹ نہ ڈال سکے، مسلم لیگ نون کے پیپلز پارٹی کے 7 ارکان کی حمایت سے 174 ووٹ تھے، تین ووٹ مسترد ہونے کے باوجود سعود مجید کو 4 ووٹ زیادہ ملے، ن لیگ کے امیدوار سعود مجید نے کل 176 ووٹ حاصل کئے جبکہ انکے پیپلز پارٹی کیساتھ ملکر بھی مجموعی ووٹ 174 بنتے ہیں۔