لاہور: (تجزیہ: عبدالجبار ناصر) سندھ کے شہری علاقوں میں آج کل سیاسی سرگرمیوں کی بجائے تجاوزات کے خاتمے اور توڑ پھوڑ کا سلسلہ جاری ہے۔ جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم رحمان کے مطابق 10ہزار سے زائد دکانیں اور پتھارے ختم کئے گئے، 25 ہزار سے زائد افراد بے روزگار اور 1 لاکھ سے زائد افراد کا معاشی قتل ہوا۔ اس توڑ پھوڑ پر عوام میں خدشات اورغصہ دونوں بڑھ رہا ہے۔ 27 نومبر کو مہران ٹائون میں عوامی احتجاج کے باعث انتظامی ٹیم کا فرار ہونا نصف درجن سے زائد چھوٹی بڑی گاڑیوں کا نذر آتش ہونا واضح مثال ہے۔
کراچی کی حکمران جماعت متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے میئر وسیم اختر اس عمل کو عدالتی حکم قرار دے کر اپنی جان بچا رہے ہیں۔ مبصرین کے مطابق تجاوزات خاتمے کی مہم کے دوران سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا گیا تو اس کے منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ سندھ کی تمام سیاسی، مذہبی سماجی، کاروباری اور قوم پرست قوتیں اس توڑ پھوڑ سے شدید پریشان ہیں۔
صوبے میں حالیہ دنوں سب سے بڑی سرگرمی جمعیت علماء اسلام کے تحت سکھر میں ہونے والا تحفظ ناموس رسالت ملین مارچ ہے، اجتماع سے خطاب میں مولانا فضل الرحمن نے حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ متحدہ مجلس عمل اس سے قبل 8 نومبر کو کراچی میں اپنی قوت کا مظاہرہ کر چکی ہے۔ مبصرین کے مطابق متحدہ مجلس عمل میں شامل دیگر جماعتیں جمعیت سے تعاون کریں تودیہی سندھ میں ایم ایم اے بڑی سیاسی قوت بن سکتی ہے۔
سندھ کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی 30 نومبر کو اپنا 51 واں یوم تاسیس منا رہی ہے، اس حوالے سے سکھرمیں بڑا جلسہ رکھا گیا ہے جس میں نئی سیاسی حکمت عملی کا اعلان متوقع ہے۔ اس وقت پیپلزپارٹی کے قائدین آصف علی زرداری، فریال تالپور اور بلاول بھٹو مشکلات میں نظر آرہے ہیں۔ بعض حلقوں کا دعویٰ ہے کہ ان پر لگے الزامات میں کافی پیش رفت ہوئی ہے اور جلد پیپلزپارٹی مشکلات کا شکار ہو گی۔ اس ضمن میں 2018ء کی آخری اور2019ء کی پہلی سہ ماہی کو اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
اسی طرح سندھ پیپلزپارٹی کی حکومت کے مستقبل کے حوالے سے مختلف خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے اور یہ بازگشت ہے کہ پارٹی میں فارورڈ بلاک تیار کیا جا رہا ہے اوربڑی حد تک پیش رفت ہوچکی ہے۔ اس حوالے سے بلوچستان کا 2017ء کا فارمولا اپنانے کی کوشش کی جا رہی ہے جس میں پہلے مرحلے میں پیپلزپارٹی میں فارورڈ بلاک اور اپوزیشن پر مشتمل حکومت کا فارمولا ہے بصورت دیگر گورنر راج۔ تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ ہر دو صورت میں سیاسی عدم استحکام اور خلفشارکا امکان ہے۔ مبصرین کے مطابق موجودہ حالات میں سیاسی عدم استحکام یا تصادم کا راستہ اختیار کرنے سے گریز کرنا چاہیے اسکی سب سے زیادہ ذمہ داری وفاقی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔
دوسری جانب وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اپنے قیام کے پہلے 100 دن مکمل کر لیے ہیں۔ ان 100 دنوں میں تمام حکومتوں بالخصوص وفاقی حکومت کی کارکردگی زیر بحث ہے۔ بعض اخبارات میں شائع ہونیوالے اعدادوشمار کے مطابق 36 فیصد افراد نے وفاقی حکومت کی کارگردگی کو تسلی بخش جبکہ 64 فیصد افراد نے غیر تسلی بخش قرار دیا ہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ 100 دنوں میں مہنگائی، بے روز گاری اور دیگر عوامی مسائل میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ عوام کو جس ریلیف کی توقع تھی وہ ملنا تودرکنار سابقہ پوزیشن کو ہی برقرار رکھنا حکومت کیلئے مشکل ہو رہا ہے۔ صورتحال اسی طرح جاری رہی تو حکومت کے خلاف میدان جلد سجے گا، اس لئے حکومت کو اعلانات اور دعوؤں کے بجائے عملی اقدام کرنے ہونگے اور کسی بھی طرح کے تصادم سے گریز کرنا ہوگا کیونکہ تصادم سے دشمن فائدہ اٹھا کر بد امنی کی سازش کرتا ہے۔
سب سے بڑی 10 ویں دفاعی نمائش آئیڈیاز 2018ء کراچی ایکسپو سینٹر میں 30 نومبر تک جاری رہے گی جس میں 50 ممالک کے 250 سے زائد وفود شرکت کررہے ہیں۔ کامیاب دفاعی نمائش نے ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان امن پسند ملک ہے اور اس کا اسلحہ بھی امن کیلئے ہے مگر دشمن خطے میں بد امنی کیلئے کوشاں ہیں اس کی واضح مثال ایک ہفتہ قبل کراچی میں چینی قونصل خانے پرحملے کے ذریعے امن کو خراب اور پاکستان کو بدنام کرنا ہے لیکن اس تمام سازش کو ہمارے جانبازسیکیورٹی اہلکاروں نے اپنی جان قربان کرکے ناکام بنا دیا۔