لاہور: (طارق حبیب) پاکستان تحریک انصاف بلندوبانگ دعوؤں کی چھتری تلے حکومت قائم کر چکی ہے، مگر جب ان دعوؤں پر عمل کا وقت آیا تو اپنے ہی اعلانات سے پیچھے ہٹنا شروع کر دیا۔
تحریک انصاف کی جانب سے اپنے ہی وعدوں سے پھرنے کے عمل کو عوامی سطح پر یوٹرن سے تشبیہ دی گئی اور پھر سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا سمیت عوامی حلقوں میں "یوٹرن" کی اصطلاح اتنی مقبول ہوئی کہ وزیراعظم عمران خان کو اپنے خطاب میں اس پر بات کرنا پڑی۔
خان صاحب نے انتہائی دلچسپ انداز میں یوٹرن کو ناصرف ایک عظیم رہنما کی سب سے اہم خوبی قرار دیدیا بلکہ ہٹلر اور نپولین سمیت دیگر رہنماﺅں کی ناکامی کی وجہ بھی یوٹرن نہ لینے کو قرار دے ڈالا۔
ہم جائزہ لیتے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان اور ان کی کابینہ نے کب کہاں کس طرح یوٹرن لیے؟
وزیراعظم عمران خان نے انتخابات سے قبل اعلان کیا تھا کہ اگر وہ وزیراعظم بن گئے تو وزیراعظم ہاﺅس میں نہیں رہیں گے، ان کا یہ دعویٰ زبان زد عام ہو گیا، ان کے حامیوں نے اس بیان کو جواز بنا کر ان کی سادگی اور کفایت شعاری کے قصے بیان کرنے شروع کر دیئے جبکہ مخالفین نے اسے صرف زبانی دعوے اور انتخابی وعدوں کے تناظرمیں گردانا۔
بعد ازاں جب عمران خان وزیراعظم بن گئے تو اس حوالے سے دو الگ الگ موقف سامنے آئے، ابتدائی طور پر عمران خان کا وزیراعظم ہاﺅس میں نہ رہنے کا دعویٰ پس پشت چلا گیا اور ان کے ترجمان افتخار درانی نے دعویٰ کیا کہ وزیراعظم اسپیکر قومی اسمبلی کی رہائش واقع منسٹرز انکلیو میں رہائش اختیار کریں گے۔
چند دن تک ترجمان وزیراعظم کا مذکورہ بیان زیر بحث رہا تاہم وزیراعظم عمران خان نے حتمی طور پر وزیراعظم ہاﺅس میں ہی واقع ملٹری سیکرٹری کی رہائش گاہ کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔
اس فیصلے کے بعد بھی نیا تنازع سامنے آ گیا، وزیراعظم کے ترجمان افتخار درانی نے بیان دیا کہ ملٹری سیکرٹری ہاﺅس وزیراعظم ہاﺅس میں نہیں بلکہ پی ایم سٹاف کالونی میں واقع ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ملٹری سیکرٹری ہاﺅس وزیراعظم ہاﺅس کے ساتھ ہی اسی احاطے میں چند گز کے فاصلے پر واقع ہے۔
دوسری جانب پی ایم سٹاف کالونی وزیراعظم ہاﺅس کی حدود سے باہر بری امام روڈ پر واقع ہے۔ اس طرح وزیراعظم عمران خان کے دعوؤں کے باوجود حتمی رہائش گاہ وزیراعظم ہاﺅس ہی قرار پائی۔
اس عمل پر مختلف حلقوں کی جانب سے وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا تاہم وزیراعظم کے ترجمان افتخار درانی اور حکومتی ترجمان فواد چودھری مسلسل اس عمل کا دفاع کرتے رہے۔
اسی طرح الیکشن سے قبل وی آئی پی کلچر کے خاتمے کے دعوے کیے گئے تھے اور کہا گیا تھا کہ وزیراعظم پروٹوکول نہیں لیں گے، اس اعلان کو بھی عوامی سطح پر زبردست پذیرائی حاصل ہوئی، مگر جیسے ہی عمران خان نے حلف اٹھایا حکومتی ترجمان نے ہالینڈ کے وزیراعظم کی موٹر سائیکل پر دفتر جانے کی مثال دیتے ہوئے اعلان کیا کہ وزیراعظم عمران خان صرف دو گاڑیاں اور دو ملازم رکھیں گے۔
اس وقت اسلام آباد میں نقل و حرکت کیلئے وزیراعظم عمران خان 6 گاڑیاں استعمال کر رہے ہیں جبکہ ملک کے دیگر شہروں میں قافلے میں شامل سیکیورٹی کی گاڑیوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔
اس طرح پروٹوکول نہ لینے کے اعلان سے بھی یوٹرن لے لیا گیا جس کی وجہ سے تحریک انصاف کے دعوؤں کے حوالے سے عوام میں سخت مایوسی پیدا ہوئی، تحریک انصاف کے وزراعلی کے پروٹوکول کی الگ داستانیں ہیں۔
وزیر اطلاعات فواد چودھری نے حلف اٹھانے کے اگلے ہی روز پریس کانفرنس میں صحافیوں کو بتایا کہ وزیراعظم عمران خان ابتدائی تین ماہ تک کوئی غیر ملکی دورہ نہیں کریں گے، اسے عوامی پیسہ بچانے اور کفایت شعاری کی مہم کا حصہ گردانا گیا مگر پھر چند دن بعد ہی وزیراعظم عمران خان سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے دورے پر روانہ ہو گئے تھے۔
اس یوٹرن پر موقف دیتے ہوئے وزیراعظم کے ترجمان افتخار درانی کا کہنا تھا کہ وزیراعظم سرکاری سطح پر اہم بات چیت کے لیے غیر ملکی دورے پر گئے ہیں۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ ماضی میں بھی وزرائے اعظم غیر ملکی سرکاری دورے اہم نوعیت کے ہی کرتے تھے نا کہ چھٹیاں گزارنے کے لیے سرکاری دورے کرتے تھے۔
اسی طرح کابینہ کے دوسرے اجلاس میں وزرا کے بیرون ملک دوروں پر ابتدائی تین ماہ کے لیے پابندی لگا دی گئی تھی، مگر سعودی عرب کے دورے پر وزیراعظم کے ساتھ شاہ محمود قریشی، اسدعمر، فواد چودھری اور عبدالرزاق داﺅد بھی گئے جس سے کابینہ کے اس فیصلے پر بھی عمل نہ ہو سکا۔
اس یوٹرن کے حوالے سے بھی دلچسپ توجیح پیش کی گئی کہ وزیراعظم کے ساتھ جانے والے وزرا اہم مقصد سے ساتھ جا رہے ہیں۔ ماضی میں وزیراعظم کے ساتھ بے مقصد جانے والے افراد کی روایت ختم کر دی گئی ہے۔
دوسری جانب کابینہ کے اجلاس میں ہی اعلان کیا گیا تھا کہ وزیراعظم اور ان کی کابینہ بیرون ملک دوروں کے لیے خصوصی جہاز استعمال نہیں کریگی۔ ایک بار پھر حکومت نے اس اعلان سے یوٹرن لیا اور نہ صرف وزیراعظم عمران خان نے دورہ سعودی عرب کیلئے خصوصی طیارہ استعمال کیا بلکہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے دورہ افغانستان کے لیے عام طیارہ استعمال کرنے کے بجائے خصوصی طیارے کو ہی فوقیت دی۔
سب سے بڑا اور فوری یوٹرن تو اس وقت سامنے آیا جب وزیراعظم عمران خان صاحب نے ایک رات افغانیوں اور بنگالیوں کو شہریت دینے کا واضح الفاظ میں اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وزارت داخلہ کا اضافی چارج ان کے پاس ہے اور وہ ہدایت کرتے ہیں کہ اس ضمن میں مربوط پالیسی تیار کی جائے۔
مگر اس اعلان کے صرف چوبیس گھنٹے بعد ہی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افغانیوں اور بنگالیوں کی شہریت کے حوالے سے ان کا بیان حتمی فیصلہ نہیں تھا بلکہ اس مسئلے پر سوچنے کی دعوت دینے کے لیے انھوں نے اپنے خطاب میں افغانیوں اور بنگالیوں کو شہریت دینے کا ذکر کیا تھا۔
اس پر ابتدائی طور پر سندھ میں حکومتی اور عوامی سطح پر سخت ردعمل سامنے آیا جبکہ ملک بھر میں وزیراعظم کے اعلان اور پھر اس بیان کو بدلنے پر شدید تنقید ہوئی البتہ تحریک انصاف کے حلقے وزیراعظم کے بیان اور پھر اس کی واپسی کو مختلف جواز دے کر سنبھالنے کی کوشش کرتے رہے۔
انتخابات سے قبل اپنے ایجنڈے میں تحریک انصاف کی جانب سے بیوروکریسی کو سیاست سے پاک کرنے کا دعویٰ بھی کیا گیا تھا۔ وزیراعظم صاحب نے وعدہ کیا تھا کہ وہ بیوروکریسی پر سیاسی اثرات مرتب نہیں ہونے دیں گے۔
اس اعلان کے برعکس سب سے پہلا جو معاملہ سامنے آیا وہ خاور مانیکا صاحب کا تھا، مبینہ طور پر خاور مانیکا سے معافی نہ مانگنے پر ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر پاکپتن رضوان گوندل کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
اس مقصد کے لیے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو استعمال کیا گیا، وفاقی حکومت اس معاملے پر خاموش رہی جبکہ سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لے لیا تھا جس کے بعد وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو اس معاملہ میں مداخلت کرنے پرعدالت سے معافی طلب کرنی پڑی تھی۔
اس قدم سے ناصرف تحریک انصاف کی ملک بھر میں سبکی ہوئی بلکہ وزیراعلیٰ پنجاب کو بھی خفت اٹھانا پڑی۔ واضح رہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب مسلسل سیاسی ماہرین کی جانب سے تنقید کی زد میں رہتے ہیں۔
7 ستمبر کو حکومت کی جانب سے اقلیتی رکن عاطف میاں کو اکنامک ایڈوائزری کونسل کا رکن مقرر کیا گیا مگر مذہبی جماعتوں کے ردعمل کے بعد اس فیصلے کو واپس لے لیا گیا۔
اس فیصلے کی واپسی پر تحریک انصاف کی حکومت کو ناصرف قومی سطح پر بلکہ عالمی سطح پر سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ اس حوالے سے انتخابات اور اس کے بعد کھل کر تحریک انصاف کی حمایت کرنے والی عمران خان کی پہلی اہلیہ جمائما گولڈ اسمتھ نے بھی تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت اپنے دعوؤں پر عمل نہ کر سکی۔
اسی طرح حکومت میں آنے سے قبل عوام کو یقین دلایا گیا تھا کہ پیٹرولیم و گیس کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا جائیگا، مگر یہ اعلان بھی صرف انتخابی اعلان ہی ثابت ہوا اور دلچسپ بات یہ کہ جب اضافہ کیا گیا تو ابتدائی طور پر فواد چودھری صاحب گیس و پیٹرولیم کی قیمتوں میں اضافے کا انکار کرتے رہے، مگر جب وزیر پیٹرولیم نے قیمتوں میں اضافے کا اعلان کیا تو فواد چوہدری صاحب ان کے ساتھ موجود تھے۔
ایک اور معاملہ اہم عہدوں پر تعیناتیوں کا بھی تھا۔ وزیراعظم عمران خان، نواز شریف حکومت پر من پسند افراد کو اہم عہدوں پر لگانے کے حوالے سے اکثر تنقید کرتے رہتے تھے۔
نجم سیٹھی کی بطور پی سی بی چیئرمین تقرری پر تو خاص طور پر انھوں نے نواز حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا تھا بلکہ عمران خان چیئرمین پی سی بی تعیناتی کا اختیار وزیراعظم کے پاس ہونے کے ہی خلاف تھے لیکن وزیراعظم بننے کے بعد انھوں نے احسان مانی کو پی سی بی چیئرمین تعینات کر دیا۔
اسی طرح سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے مختلف منصوبوں کے افتتاح پر تنقید کرتے ہوئے عمران خان کہتے تھے کہ منصوبوں کے افتتاح متعلقہ محکموں کے سربراہان کو کرنے چاہیں مگر حکومت میں آنے کے بعد انھوں نے خود یہی کام شروع کر دیے اور راولپنڈی میانوالی ایکسپریس کا افتتاح کر کے اپنے ہی موقف سے پیچھے ہٹ گئے۔
عمران خان صاحب نے بطور وزیراعظم حلف اٹھاتے ہی اعلان کیا کہ دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کیلئے کمیشن بنایا جائے گا اور وہ کسی بھی حلقے کو دوبارہ گنتی کیلئے کھولنے کے لیے تیار ہیں، مگر جب حلقہ 131 کی دوبارہ گنتی کے لیے خواجہ سعد رفیق کی درخواست منظور ہوئی تو اپنے بیان سے یوٹرن لیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے سپریم کورٹ میں اپیل کر کے سٹے لے لیا تھا۔
اس حوالے سے بھی سیاسی ماہرین نے وزیراعظم کے اس قدم کو ان کی شکست سے تعبیر کیا تھا۔ اسی طرح وزیراعظم عمران خان کی جانب سے مبینہ طور پر 25 اگست کو امیر جوگیزئی کو گورنر بلوچستان اور شبلی فراز کو لیڈر آف سینٹ کیلئے نامزد کیا گیا تھا۔
اگلے ہی روز 26 اگست کو امیر خان جوگیزئی کا نام واپس لے لیا گیا، اس حوالے سے وزیراعظم ہاﺅس کے ترجمان کا کہنا تھا کہ امیر خان جوگیزئی کا نام زیر غور تھا، مگر حتمی فیصلہ انھیں گورنر بنانے کے حوالے سے نہیں کیا گیا تھا۔
تحریک انصاف کی جانب سے اپنے ہی اعلانات کے یکسر برعکس اقدامات کرنے سے حکومت کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ دوسری جانب سے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے بھی یوٹرن پر بیان نے مختلف حلقوں میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔
اپوزیشن کی جانب سے یوٹرن کے عمل اور عمران خان کے بیان پر سخت تنقید کی جا رہی ہے جبکہ حکومتی حلقے دنیا بھر سے موجودہ اور سابقہ عالمی رہنماﺅں کی جانب سے اپنے اعلانات کے برعکس فیصلوں کی مثالیں پیش کر رہے ہیں۔