لاہور: (روزنامہ دنیا) کمرے میں ہزاروں نئے چوزے چوں چوں کر رہے ہیں، انڈے سینے کی ٹرے سے ٹیکنیشن چوزوں کو نکال کر انہیں رانی کھیت کی ویکسین لگا رہے ہیں، کمزور چوزے علیحدہ کر کے باقی پلاسٹک کے برتنوں میں ڈال رہے ہیں، جس کے بعد انہیں پالنے کیلئے ٹرکوں کے ذریعے سرکاری فارمز میں بھیجا جائیگا۔
پنجاب پولٹری ریسرچ سنٹر میں یہ کام ہفتے میں دو بار ہوتا ہے، جوکہ وزیراعظم عمران خان کے قومی غربت مٹاؤ پروگرام کا حصہ ہے جس کا انہوں نے 29 نومبر کو اعلان کیا۔ یہ پروگرام بہت سادہ ہے، کروڑوں غریب خاندانوں، خصوصاَ دیہی خواتین کو پانچ مرغیاں اور ایک مرغ فراہم کرنا ہے تاکہ وہ انڈے فروخت کر کے کچھ آمدنی حاصل کر سکیں۔ پاکستان کو سنگین میکرو اکنامک اور مالیاتی بحرانوں کا سامنا ہے، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر گر رہی ہے، بیرونی قرضوں کو بوجھ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ عمران خان جنہوں نے قسم کھائی تھی کہ کبھی باہر ہاتھ نہیں پھیلائیں گے، انہیں مجبوراَ سعودی عرب اور دیگر ملکوں سے اربوں ڈالر کا قرض لینا پڑا، جبکہ آئی ایم ایف پیکیج کیلئے مذاکرات ہو رہے ہیں۔
ایسے بھاری بھرکم مسائل جن سے انہیں نبرد آزما ہونا ہے، اس کے پس منظر میں پولٹری پراجیکٹ کا آئیڈیا عمران خان کو مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس سے ملا، مگر اس منصوبے کا ملک بھر میں مذاق اڑایا گیا، شہ سرخیوں اور ٹوئٹس میں ‘‘پولٹری فیڈ’’ کو ملک کے سنگین مسائل میں سے ایک قرار دیا گیا۔ ایک ایڈیٹوریل کارٹون میں دکھایا گیا کہ ایک بھاری چھکڑا جس پر ‘‘معیشت ’’لکھا ہے ، اسے ایک مرغی کھینچنے کی جدوجہد کر رہی ہے۔ مگر پولٹری ریسرچ انسٹیٹیوٹ جس نے کئی سال گھریلو مرغ بانی کیلئے خاص چکن تیار کرنے میں کئی سال لگائے ہیں، کے ڈائریکٹر عبدالرحمن کو یقین ہے کہ یہ منصوبہ کروڑوں غریب پاکستانیوں کی صحت اور زندگی پر مثبت اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ غذائیت کی کمی پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر کے 44 فیصد بچوں کی نشوونما کو متاثر کرتی ہے۔ پاکستان میں کم سن بچوں کی زیادہ شرح اموات کی بڑی وجہ ماؤں کی ناقص غذا ہے۔ یہ انڈے ان کی خوراک کا صحت بخش جزو بن سکتے ہیں۔
ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان میں نومولود بچوں میں اموات کی شرح فی ہزار میں 40 ہے، یہ دنیا میں بلند ترین شرح ہے۔ دوسرا ہدف انڈوں کی فروخت کے ذریعے غریب گھرانوں کی اضافی آمدنی کا اہتمام کرنا ہے۔ لائیو سٹاک حکام کا کہنا ہے کہ پانچ مرغیاں ہر ہفتے متعدد انڈے دیں تو فی گھرانہ آمدنی میں 10 ہزار روپے تک اضافہ ہوسکتا ہے۔ یہ رقم گارڈ یا تعمیراتی شعبے کے محنت کش کی ماہانہ آمدنی سے زیادہ ہے۔ ڈائریکٹر عبدالرحمن کا کہنا ہے کہ دیسی اور مصر، آسٹریلیا اور رھوڈ آئی لینڈ کی سرخ مرغیوں کے ملاپ سے وفاق نے مرغیوں کی ایسی نسل تیار کی ہے جو سخت موسم اور مشکل حالات کا سامنا کرنے کی سکت رکھتی ہیں اور بیمار بھی کم پڑتی ہیں۔ ان میں قوت مزاحمت زیادہ ہوتی ہے۔ یہ مرغیاں درختوں اور صندوقوں میں رہ سکتی ہیں۔ سیڑھیوں کے نیچے بھی انہیں رکھا جاسکتا ہے۔ مہنگی فیڈ کے بجائے یہ باورچی خانے کی بچی کھچی اشیاء کھا کر بھی زندہ رہتی ہیں۔ یہ مرغیاں بلیوں اور لومڑیوں کا سامنا بھی کرسکتی ہیں۔ شکوک و شبہات کا اظہار کرنے والے افراد کے برعکس محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے بہت سے غریب پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کا سن کر انہیں بہت خوشی ہوئی ہے اور وہ اس میں حصہ لینے کے لیے بے تاب ہیں۔ بہت سے خوش حال گھرانوں نے بھی غریب گھرانوں کی مشکلات کم کرنے سے متعلق عمران خان کی ان کوششوں کو سراہا ہے جن کا انہوں نے انتخابی مہم میں وعدہ کیا تھا۔
اسلام آباد کی متوسط طبقے کی خاتون خانہ زاہدہ شاد کہتی ہیں کہ لوگ عمران خان کی تجویز پر ہنسیں گے مگر میں ان پر ہنستی ہوں۔ یہ بہت اچھا آئیڈیا ہے۔ زاہدہ شاد نے بھی گھر میں گیراج کے نزدیک نصف درجن مرغیاں رکھی ہوئی ہیں۔ اس کا مقصد ان کے پوتوں پوتیوں کو اضافی غذائیت فراہم کرنا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں لوگ اچھے خاصے پیسے خرچ کر کے کھانے کی خالص چیز کا اہتمام نہیں کر پاتے۔ ملک کے دیہی علاقوں میں مرغیاں پالنا عام بات ہے۔ راولپنڈی جیسے گنجان آباد شہر میں بھی، جہاں ٹرکس کے علاوہ گدھا گاڑیاں بھی چھوٹی سڑکوں اور گلیوں میں دکھائی دیتی ہیں اور ٹریفک جام کا سبب بنتی ہیں، لوگ چھت پر یا سیڑھیوں کے نیچے مرغیاں پالتے ہیں۔ تقریباً ہر پاکستانی آپ کو یہی رائے دیتا ہوا ملے گا کہ ہائی ٹیک پولٹری فارمز میں بڑے پیمانے پر پروان چڑھائی جانے والی مرغیوں کے مقابلے میں دیسی مرغیوں کے انڈے زیادہ لذیذ اور مقوی ہوتے ہیں۔ ہائی ٹیک پولٹری انڈسٹری میں زیادہ سرمایہ ان بڑے صنعت کاروں کا لگا ہوا ہے جو کبھی سیمنٹ اور ٹیکسٹائل سیکٹر میں سرمایہ کاری کیا کرتے تھے۔ راولپنڈی میں کراکری شاپ چلانے والے 55 سالہ سردار علی عباس نے نے اپنے گھر کی چھت پر مرغیاں پال رکھی ہیں اور اب نئے سرکاری پروگرام کے تحت مرغیاں پالنے کے لیے درخواست دی ہے۔ انہیں بے چینی سے اس پروگرام کے شروع ہونے کا انتظار ہے۔
سردار علی عباس کہتے ہیں کہ فارم کی مرغیاں زیادہ اور بڑے انڈے دیتی ہیں مگر وہ لذت اورغذائیت میں کمتر ہوتے ہیں۔ عباس نے کہا کہ میں اپنے بچوں کے لئے ایسی ہی اچھی خوراک چاہتا ہوں جیسی میرے والدین اور ان کے الدین ہمارے لئے چاہتے تھے۔ اصل مسئلہ دیسی انڈوں کی قیمت ہے اور وہ بھی ملتے بھی مشکل سے ہیں۔ دوسرے انڈے ہر کہیں دستیاب ہیں۔ ہر پلاٹ میں چکن سکیم میں سب سے بڑی رکاوٹ جو پیش آتی ہے وہ معیشت کا پیمانہ کہلاتی ہے جس میں فیکٹری میں بنے انڈوں کو سستا رکھا جانا ہے، کاروبار کو توسیع دینے کے عمل، سٹور اور قیمتوں میں ردوبدل جیسے معاملات سے متعلق ہے جس چھوٹے کسانوں کی قیمت پر بڑے کاروباری لوگوں کو فائدہ پہنچایا جاتاہے۔ ایک عالمی جریدے میں پاکستانی ڈویلپمنٹ پروفیشنل ضیغم خان نے اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ پاکستان کے دیہات میں مستقل غربت چکن کے بجائے ‘‘لومڑی’’ سے متعلق ہے۔ انہوں نے لکھا کہ جب سیاسی وکاروباری اشرافیہ منافع کو بڑھانے میں کوشاں ہوں ایسی صورت میں مقابلے کے میدان کو ٹھوس تبدیلی سے ہی کسانوں کو ترقی دی جاسکتی ہے۔ انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ‘‘مسئلہ یہ ہے کہ ہماری مارکیٹ ہر موقع پر غریب کیخلاف کام کرتی ہے’’۔ یہ تو بہتر ہے کہ شہری اچھے انڈے کھائیں لیکن چھوٹے کاروباری شخص جو 500 مرغیاں پالتا ہے کیلئے ان کا مقابلہ کرنا مشکل ہے جو 30 ہزار مرغیاں پالتا ہے۔ یہ بالکل واضح نہیں ہے کہ آیا خان کی غربت کیخلاف جدوجہد کامیاب ہو گی یا نہیں یا ایک ہفتے میں چند انڈوں کی فروخت سے دیہاتی خاندانوں کی زندگی میں کوئی بڑی تبدیلی آئے گی۔تاہم شہروں میں رہنے والے بہت سے پاکستانی ایک روایتی زندگی کے عشق میں مبتلاہوکر اس منصوبے کے لئے پسندیدگی کی نظر رکھتے ہیں۔
راجہ اور غزالہ سہیل راولپنڈی کی ایک مارکیٹ کے 3 منزلہ گھرمیں رہتے ہیں، یہ شہر ایسے لوگوں سے بھرا پڑا ہے جو اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کی تلاش میں دیہات سے یہاں منتقل ہوئے، یہ جوڑا کئی دہائیوں سے مقیم ہے اور بچے بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں لیکن وہ بھی ایسی ہی دیہات کی اس زندگی کو یاد کرتے ہیں جو وہ چھوڑ کر آئے تھے۔ 42 سالہ راجہ جو سپیئرپارٹس کا کاروبار کرتا ہے نے حال ہی میں ایک مرغا اور کئی مرغیاں خرید کی ہیں اس نے ان کے لئے چھت پر ایک ڈربہ بھی بنا دیا ہے ۔غزالہ جس کی ذمہ داری مرغیوں کو خوراک دینا ہے اور ڈربے کی صفائی کرنا ہے نے کہا کہ‘‘مجھے بھینس، بکریاں اور مرغیاں پالنا اچھا لگتا ہے۔ مجھے اپنا بچپن یاد آگیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ‘‘اب ہم انڈے کھاسکتے ہیں’’۔ اگر ہم اس پروگرام کا حصہ بن جاتے ہیں اور کچھ مزید انڈے فروخت کرسکیں تو یہ اچھا ہوگا۔