لاہور: ( سلمان غنی) مقبوضہ کشمیر میں نہتے اور مظلوم کشمیریوں کی ٹارگٹ کلنگ اور انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کو حکومتی سطح پر سنجیدگی سے لیا گیا ہے اور پاکستان اس پر عالمی محاذ گرم کرنے کیلئے متحرک ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو ٹیلی فونک کال اور اس میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال اور یہاں ہونے والی ریاستی دہشت گردی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر رد عمل کے اظہار کو ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس سے قبل وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے بھی یو این اور او آئی سی کے ذمہ داران سے رابطے اور انہیں اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنے کیلئے اپیل بھی اس ضمن کی کڑی ہے اور اب 28 دسمبر کو اہم ممالک میں پاکستان کے سفارتکاروں کی کانفرنس بلائے جانے کا عمل بھی ظاہر کر رہا ہے کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے اور کشمیریوں کے خلاف ہونے والی بربریت کے خاتمہ میں سنجیدہ ہے اور مسئلہ کے بنیادی فریق کے طور پر اپنا فعال کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔
حقیقت بھی یہی ہے کہ پاکستان کی جانب سے جذبہ خیر سگالی کے تحت کرتارپور کی سرحد کھولنے کے عمل اور سکھ کمیونٹی کیلئے ریلیف کے بعد توقع یہ تھی کہ بھارت اس پر مثبت رد عمل دے گا۔ لیکن کرتارپور راہداری کھلنے کے بعد بھارت کی جانب سے مقبوضہ وادی میں ٹارگٹ کلنگ میں ہونے والے اضافے کا عمل یہ ظاہر کر رہا ہے کہ بھارت بوکھلاہٹ سے دو چار ہے اور حالیہ دنوں میں بھارتی افواج کے ظلم و جبر میں اضافہ ہوا ہے اور صرف دسمبر کے مہینے میں مقبوضہ وادی میں شہادتوں کی تعداد اڑھائی سو سے بڑھ گئی ہے اور کوئی دن ایسا نہیں جا رہا کہ معصوم کشمیریوں کو سرعام گولیوں کا نشانہ بنا کر اپنی وحشت و درندگی کا مظاہرہ نہ کیا جاتا ہو لیکن اس بدترین اور پریشان کن صورتحال میں عالمی ضمیر خاموش تماشائی بنا ہوا ہے اور خود اقوام متحدہ کا کردار بھی کچھ نہ سننے اور کچھ نہ کرنے کا ہے، ماضی میں مقبوضہ وادی میں ہونے والے ظلم و ستم اور کلنگز کے واقعات پر بیانات اور قراردادوں کا سہارا لے کر مسئلہ کی اہمیت سے صرف نظر برتا جاتا رہا جس کے باعث بھارت اور بھارتی افواج کو شہ ملتی رہی۔
عمران خان کی حکومت کے بھی برسر اقتدار آنے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں بربریت کے واقعات پر رد عمل کے اظہار سے زیادہ اس امر پر زور دیا کہ پاکستان بات چیت کیلئے تعلقات اور مذاکرات کیلئے تیار ہے اور بھارت ایک قدم اٹھائے تو پاکستان دو قدم اٹھانے کیلئے تیار ہوگا۔ جس سے لگتا تھا کہ یہ سارا عمل اور رد عمل ایک بین الاقوامی ایجنڈا کے تحت ہے جس کے ذریعے علاقہ میں بھارتی بالادستی قائم کر کے ہمسایہ ممالک کو ان کے تابع کرنا ہے۔ لیکن مقبوضہ کشمیر میں ٹارگٹ کلنگ کی نئی لہر خصوصاً پلواما میں پیش آنے والے واقعات کے بعد پاکستان کے خارجہ آفس اور خصوصاً وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے آنے والے بروقت رد عمل اور پھر وزیراعظم عمران خان کے مقبوضہ وادی میں بھارتی مظالم کے خلاف آواز اٹھانے کے اعلان سے ظاہر ہوا ہے کہ حکومت نہ صرف مقبوضہ وادی کی صورتحال کو سنجیدگی سے لے رہی ہے بلکہ اس کیلئے عالمی محاذ گرم کرنے کیلئے بھی کوشاں ہے اور اس کا آغاز وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے ٹیلی فونک رابطہ میں کیا ہے اور واضح طور پر کہا ہے کہ بھارتی افواج انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں، اقوام متحدہ اس کے خلاف اپنا کردار ادا کرے اور ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ وزیراعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اس حوالے سے دیگر عالمی قوتوں اور رہنماؤں سے بھی رابطوں کا پروگرام رکھتے ہیں اور 28 دسمبر کو سفارتکاروں کی کانفرنس کا انعقاد بھی تحریک انصاف کی حکومت کی سنجیدگی ظاہر کرتا ہے۔
پاکستان کی جانب سے نئی حکومت کے قیام کے بعد مغربی اور مشرقی سرحدوں پر امن کے قیام کا عزم ظاہر کیا جا رہا ہے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بار بار یہ بات کہتے اور دہراتے نظر آ رہے ہیں کہ افغانستان کا مسئلہ جنگ سے نہیں ڈائیلاگ سے حل ہوگا اور بھارت سے بھی مذاکرات پر پیش رفت چاہتے ہیں۔ دنیا کو پاکستان کی بات سننی اور سمجھنی چاہئے پاکستان کے اس جذبہ کو سراہتے ہوئے پاکستان کے ساتھ کھڑے ہونا چاہیے اگر امریکہ طالبان سے مذاکرات کیلئے پاکستان کا کندھا اور کردار مانگتا ہے تو پھر کشمیر کے سلگتے مسئلہ کو بھی حل کرنے کیلئے یہی آپشن بھارت کیلئے بھی استعمال ہونا چاہیے اور بھارت پر دباؤ ڈال کر اسے مذاکرات کی میز پر بٹھانا چاہیے اس میں اس کی بہتری اور خطہ میں امن اور ترقی کا راز مضمر ہے۔ آج کی صورتحال میں مسئلہ کشمیر کے حل اور اس کیلئے بھارت پر دباؤ کو ممکن بنانے کیلئے پاکستان کے اندر استحکام ضروری ہے ایک مضبوط مستحکم اور خوشحال پاکستان میں مسئلہ کشمیر کے حل کا ضامن بن سکتا ہے علاقائی صورتحال میں اپنی اہلیت کی بناء پر اپنے سے دس گنا بڑی طاقت پر سبقت حاصل کر سکتا ہے لیکن اس کیلئے ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کو اپنے اندر سے غصہ انتقام اور حسد و بغض کی آگ کو ٹھنڈا کرتے ہوئے قومی جذبہ بروئے کار لانا ہوگا وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت کو اگر موقع ملا ہے تو انہیں اس موقع کو مخالفین سے نمٹنے، انہیں دیوار سے لگانے کے بجائے ساتھ لیکر قومی ترقی علاقائی مسائل کے حل اور دیگر ایشوز پر آگے بڑھنا چاہیے یہی وہ کریڈٹ ہوگا جو اس پاکستان کی سیاسی تاریخ میں زندہ رہے گا ورنہ ایک دوسرے کو جھکانے گرانے اور منانے کے چکر میں پڑنے والوں کو کبھی تاریخ یاد نہیں رکھتی۔