وجہ تنازع آپریشن نہیں طریقہ کار

Last Updated On 23 January,2019 09:03 am

لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) پنجاب حکومت نے جے آئی ٹی کی ابتدائی رپورٹ کو ہتھیار بناتے ہوئے سی ٹی ڈی کے ذمہ داران کو ان کے عہدوں سے الگ کرتے ہوئے آپریشن میں شامل سی ٹی ڈی کے اہلکاروں کے خلاف دہشت گردی کی عدالت میں مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔

صوبائی وزیر قانون راجہ محمد بشارت نے اس کیس کے اہم ترین کردار، ڈرائیور ذیشان کے کردار پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے سانحہ ساہیوال کو 100 فیصد درست وقوعہ قرار دے کر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ ان کی پریس کانفرنس میں جب ذیشان کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ابھی جے آئی ٹی نے مزید مہلت مانگ لی ہے۔ اس ساری پریس کانفرنس میں سب سے خطرناک بات وزیر قانون کی طرف سے پورے یقین کے ساتھ سانحہ ساہیوال کو 100 فیصد درست آپریشن قرار دینا تھا۔ کیونکہ وہ وقوعے میں ایک فیملی کو بے گناہ اور دوسرے ہمراہی ڈرائیور کو مبینہ دہشت گرد سمجھ رہے ہیں۔

کیا اب تک کی جے آئی ٹی رپورٹ سے حکومت قوم کو مطمئن کرنے میں کامیاب رہی ؟ آپریشن درست تھا، حکومت نے سی ٹی ڈی کی اعلیٰ ترین قیادت کو ان کے عہدوں سے کیوں ہٹا دیا مگر ابھی تک اصل حقائق سے قوم یکسر لا علم کیوں ہے ؟ کیا ماضی میں اس طرح کے واقعات کے بعد حکومتوں نے عوامی غیض و غضب کو اتنا سنجیدہ لیا ؟ کل کی صوبائی حکومت کی اعلیٰ سطح میٹنگ اور دو اہم ترین وزرا کی پریس کانفرنس کے بعد اہم ترین اٹھائے گئے اقدامات سے قوم کو با خبر کیا گیا مگر اس ساری تحقیقات میں بظاہر تو لگ رہا ہے کہ حکومت آگے جانا چاہ رہی ہے مگر سویلین ادارے اندر سے کھوکھلے ہو رہے ہیں اور آپریشن کے پسِ پردہ عناصر کی طرف کوئی نشاندہی نہیں ہو رہی۔

اس آپریشن کے طریقہ کار پر بھی کوئی لب کشائی نہیں کر رہا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور کارروائی میں کامیابی اور قربانیوں کی طویل داستان اور تاریخ پاکستان کے پاس ہے اور بہت سے آپریشن غلط معلومات کی بنیاد پر بھی شاید ہوئے ہوں مگر اس آپریشن میں اصل وجہ تنازع اس آپریشن کا طریقہ کار ہے۔ پھر اس واضح اور سنگین غلطیوں سے بھرپور آپریشن کے بعد چھوٹے بچوں کے ساتھ روا رکھے جانیوالے سلوک نے تو رہی سہی کسر نکال دی اور سول سوسائٹی نے بھرپور کردار ادا کرتے ہوئے سوشل میڈیا کی طاقت کے بل بوتے پر حکومت کو بھنور میں ڈال دیا اور اس وقت حکومت وقت ایک بھرپور دباؤ میں ہے اور اس ساری صورتحال میں ہو یہ رہا ہے کہ حکومت ایک فائنل نتیجے تک پہنچنے سے پہلے اعلیٰ ترین پولیس حکام کو ہٹا رہی ہے ۔ اس سے ہوگا یہ کہ ایک تو عوامی غم و غصہ کم ہوگا مگر معاملے کے اصل حقائق تک پہنچنا اور پسِ پردہ عناصر کو فوجداری ٹرائل کے ذریعے سزا دینے کے معاملے میں شاید موجودہ حکومت کا بس نہ چلے۔

آپریشن کے دوران اور بعد کے سی ٹی ڈی رویے نے دہشت گردی کے خلاف ان کی تربیت اور صلاحیت پر بھی خوفناک سوالات اٹھا دیئے ہیں۔ بچوں اور خواتین کو بچانا اور اس کیلئے نقصان برداشت کرنا تو میدان جنگ کی بھی ایک روایت ہے مگر اس طرح دن دہاڑے جب گاڑی کو سڑک کنارے لایا گیا پھر زندہ پکڑنے کے بہترین امکانات کو عملاً رد کر کے یکطرفہ فائرنگ کر کے چار لوگوں کو مارنا دہشت گردی کے خلاف کسی بھی حکمت عملی میں فِٹ نہیں ہو رہے۔ اس واقعے نے ہمارے سماج کی قوت اور رائے عامہ کے میدان میں ڈیجیٹل میڈیا کی قوت کو آشکار کیا ہے۔ جس طرح 5 سے 6 گھنٹوں میں حکومت اور سول ادارے خصوصاً پولیس دفاعی پوزیشن پر آئی اس کیلئے پا کستان کی مڈل کلاس سول سوسائٹی مبارکباد کی مستحق ہے۔ اس درجہ رائے عامہ کی بیداری اور حکومتی ا قدامات کے بعد پولیس کے معمولی درجے کے اہلکار تو کیا اعلیٰ ترین افسران بھی ایسے مبینہ آپریشن اور غلطیوں سے بھرپور ایڈونچرز (جعلی مقابلے ) سے کوسوں دور بھاگیں گے۔

ماضی کے مقابلے میں اس حکومت نے نسبتاً عوامی رد عمل کو محسوس کیا۔ اور بہت کم وقت میں انصاف کے راستے پر چلنے کو ترجیح دی۔ جس سطح کے پولیس افسران کو معطل کیا گیا، جن اہلکاروں کو دہشت گردی کے مقدمے میں ٹرائل کرنے کی بات کی گئی اس سے بہر حال پولیس کو اپنا رویہ درست کرنے میں مدد ملے گی، اس واقعے سے پولیس میں اصلاحات کی راہ ہموار ہوئی۔ دوسری حکومتوں نے پولیس کی اعلیٰ قیادت کو محاسبہ میں کھڑا کیا ہوتا تو شاید سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مظلومین کو انصاف مل چکا ہوتا، سانحہ بلدیہ ٹاؤن اور 12 مئی کے واقعات کے ذمہ داروں کو کٹہرے میں کھڑا کیا ہوتا تو ایسے دلسوز واقعات دوبارہ نہ ہوتے۔ خدا کرے یہ سنگین واقعہ اب پنجاب میں پولیس اصلاحات کا آغاز بن جائے اور ہماری قوم کو شر میں سے خیر میسر آ جائے ۔