لاہور: (روزنامہ دنیا) معروف تجزیہ کار ایاز امیر نے کہا کہ 1970 سے پہلے والی سماجی روایات ہم پاکستان میں نہیں لاسکتے، اس سے پہلے جو مشروبات پی آئی اے میں ملا کرتے تھے، وہ دینا تو درکنار، ان کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے تو ایسی صورتحال میں کون پاکستان میں آئے گا، اگر حکومت کے پاس 15ارب ڈالر آگئے ہیں تو پھر آئی ایم ایف کے پاس جانا سمجھ سے بالا تر ہوگا۔
پروگرام تھنک ٹینک میں میزبان عائشہ ناز سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانا پاکستان کی مجبوری ہے، جولائی میں پاکستان نے 5 ارب ڈالر قرض اور سود کی مد میں دینے ہیں، اس لئے ہم مجبور ہو کر آئی ایم ایف کے پاس جائیں گے۔
سینئر تجزیہ کار ہارون الرشید نے کہا کہ عمران خان چار وزیر بدلنا چاہتے ہیں اور فوج کے ساتھ اب تعلقات کی نوعیت وہ نہیں ، یہ نوعیت بدل رہی ہے، آئی ایم ایف وہی کرے گا جو اس سے امریکہ کہے گا، اس وقت امریکہ کو ہماری ضرورت پڑ گئی، وہ افغانستان میں ہماری مدد چاہتا ہے، اس لئے تھوڑی سی نرمی ہوسکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ڈرائیور کو گاڑی چلانا نہ آئے تو وہ کتنا بھی نیک اور خوش اخلاق ہو تو اس کا کیا فائدہ ہے؟۔ ان کا کہنا تھا کہ اب 18 ویں ترمیم واپس نہیں ہوسکتی، دنیا میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ جب نیچے اختیارات منتقل ہو جائیں تو پھر وہ اوپر چلے جائیں۔
سیاسی تجزیہ کار روزنامہ دنیا کے گروپ ایگزیکٹو ایڈیٹر سلمان غنی نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے آئی ایم ایف کی سربراہ سے ملاقات کی ہے اور یہ تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم آئی ایم ایف کی سربراہ سے ملے ہیں، یہ ایک اچھی بات ہے، لوگ بہت سی توقعات رکھتے ہیں، مہنگائی کا طوفان آیا ہے اور لوگ اس کے نیچے دبے ہیں، اس لئے اہم بات یہ ہے کہ حکومت عوام کو کوئی ریلیف دے سکے گی۔
اسلا م آباد سے دنیا نیوز کے بیورو چیف خاور گھمن نے کہا کہ حکومت کی کوشش یہی تھی کہ آئی ایم ایف سے جتنا کم سے کم پیسہ لیا جاسکے، لیا جائے، اس وقت حکومت کی تھوڑی سی پوزیشن بہتر ہوئی ہے، اس وقت پرائمری بیلنس سے بھی اڑھائی تین سو ارب اخراجات زیادہ ہیں لیکن اب آئی ایم ایف سے بارگین کرنا آسان ہوگا۔