پیر محل: (دنیا نیوز) سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق حلقہ پی پی 123 میں دوبارہ گنتی ہوئی تھی دوبارہ گنتی میں تحریک انصاف کی سونیا علی رضا شاہ ن لیگ کے امیدوار سید قطب علی شاہ المعروف علی بابا سے 9 ووٹوں سے آگے تھیں لیگی امیدوار نے 21 پولنگ اسٹیشن کی تیسری مرتبہ گنتی کی درخواست دے رکھی تھی جو کہ سپریم کورٹ سے خارج ہونے کے بعد ہائی کورٹ سے بھی خارج ہوئی۔ دوبارہ گنتی میں فاتح رہنے والی تحریک انصاف سونیا علی رضا شاہ کو الیکشن کمیشن کی جانب سے نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔
پی پی123 کی دوبارہ گنتی ایک بار پھر معمہ بن گئی ہے الیکشن 2018 کے بعد اس حلقہ کے نتائج میں ڈرامائی تبدیلیاں آتی رہیں۔ تفصیل کے مطابق ریٹرننگ آفیسر پی پی123 شہوار امین واہگہ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ جنرل الیکشن میں سب سے پہلے فارم 49 سونیا بی بی کو جاری کیا گیا جب کہ اس وقت کے ہارنے والے امیدوار سید قطب علی شاہ المعروف علی بابا نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا اور لاہور ہائی کورٹ کےحکم پر اس حلقہ کے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی گئی جب 21 پولنگ اسٹیشن کی گنتی مکمل ہوئی تو قطب علی شاہ کو 17ووٹوں کی برتری حاصل ہوگئی تو امیدوار کی درخواست پر گنتی روک دی گئی اور فارم49 جاری کردیا گیا اس کے بعد ہارنے والی امیدوار سونیا بی بی نے سپریم کورٹ سے رجوع کرکے ایک بارپھر دوبارہ گنتی کے احکامات حاصل کرلئے۔
سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق پی پی 123 کے تمام ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی جانا تھی جبکہ ریٹرننگ آفیسر نے 188 پولنگ اسٹیشن کی گنتی مکمل کرنے کے بعد اپنی رپورٹ میں لکھا کہ باقی21 پولنگ اسٹیشن کی گنتی کی ضرورت نہیں جو کہ پہلے ہائیکورٹ کے حکم سے ہو چکی ہے اور اس کی اب ضرورت اس لیئے بھی نہیں ہے کہ الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت ریٹرننگ آفیسر صرف ایک بار ہی کسی پولنگ اسٹیشن کی گنتی کرسکتا ہے اس لیئے گنتی عمل مکمل ہو گیا ہے انہوں نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی لکھا کہ گنتی کے عمل کے دوران امیدواروں اور ریٹرننگ آفیسر کے سامنے پریزائیڈنگ آفیسرز کی بہت ساری بے ضابطگیاں سامنے آئیں رپورٹ میں ہارنے والی امیدوار کی طرف سے دی گئی ایک درخواست کا حوالہ دیتے ہوئے ریٹرننگ افسر نے کہا کہ پولنگ اسٹیشن نمبر 1 اور پولنگ اسٹیشن نمبر 3 کے پیکٹ بغیر سیل کے پائے گئے اس طرح جب تمام امیدواروں کے سامنے پولنگ اسٹیشن نمبر 4,1 ,46, ,101 122 129, اور 150 کے پیکٹ کھولے گئے تو وہ بھی بغیر سیل کے پائے گئے اس پر امیدواروں نے تحفظات کے ساتھ شفافیت پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا۔
ریٹرننگ آفیسر نے اپنی رپورٹ میں ہارنے والی امیدوار کی درخواست کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پولنگ اسٹیشن نمبر 4 کے پیکٹ میں موجودہ ووٹ فارم 45 کے مطابق 224 تھے اور پیکٹ میں سے 223 ووٹ برآمد ہوئے رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ بہت سے پولنگ اسٹیشن پر پولنگ سٹاف کی سنگین غلطیاں پائی گئیں مثال کے طور پر پولنگ اسٹیشن نمبر چار 26 ,30, ,38 109 ,113, 121 ,127, 156 157, اور 202 جبکہ پولنگ سٹیشن نمبر 123 میں بہت بڑی اور سنگین غلطی پائی گئی اور جیتنے والے امیدوار قطب علی شاہ المعروف علی بابا کی درخواست کا ذکر کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا کہ فارم 45 کے مطابق اس پولنگ سٹیشن پر علی بابا کے461 ووٹ درج ہیں جبکہ دوبارہ گنتی کے دوران پیکٹ میں473 ووٹ پائے گئے اور اسی طرح دوبارہ گنتی کے دوران پولنگ اسٹیشن نمبر 2 میں بھی پولنگ سٹاف کی طرف سے بڑی غلطی سامنے آئی جس میں مختلف امیدواروں کو ڈالے گئے 250 سے زائد ووٹوں پر پریزائیڈنگ افسر کے دستخط ہی موجود نہیں ہیں اسی طرح جب پولنگ سٹیشن نمبر 198 کا تھیلا کھولا گیا تو اس میں 100 ووٹوں کی پشت پر مہر ہی ثبت نہیں کی گئی تھی اس رپورٹ میں جیتنے والے امیدوار کی درخواست کا ذکر کرتے ہوئے ریٹرننگ آفیسر نے لکھا کہ اس پولنگ اسٹیشن پر میرے 83 درست ووٹوں کو بغیر سٹیمپ کے ووٹوں سے تبدیل کیا گیا ہے اس لئے پولنگ اسٹیشن کے رزلٹ کو حتمی رزلٹ کا حصہ نہ بنایا جائے اس نکتہ پر ریٹرننگ آفیسر کی طرف سے جیتنے والے امیدوار کو الیکشن کمیشن سے رجوع کرنے کا کہا گیا ہے اور رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس نکتہ پر ریٹرننگ آفیسر اس کا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتا رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ سپریم کورٹ کی طرف سے ریٹرننگ آفیسر کو نہ تو حتمی رزلٹ جاری کرنے کا کہا گیا ہے اور نہ ہی الیکشن کمیشن کی طرف سے ایسی کوئی ہدایات ہیں ان حالات میں جب پولنگ اسٹیشن نمبر 123 کے 12 ووٹوں کا فیصلہ بھی نہیں ہوتا ریٹرننگ آفیسر حتمی رزلٹ جاری نہیں کرسکتاکسی بھی امیدوار کی کامیابی کا نوٹیفیکیشن جاری کرنے کا اختیار نہیں رکھتا۔