لاہور: (امتیاز گل) بھارت کی تمام تر لابنگ اور امریکہ کی دھمکی کے باوجود چین نے مولانا مسعود اظہر کو بین الاقوامی دہشت گرد قرار دینے کی قرارداد کو ویٹو کر دیا ہے۔ بلاشبہ سب پاکستانیوں نے سکھ کا سانس لیا ہے اگر چین سلامتی کونسل میں متعلقہ قرار داد کو ویٹو نہ کرتا تو اس سے بلاشبہ دنیا بھر میں پاکستان کا نام دہشت گرد تنظیموں اور افراد کے ساتھ جوڑ کر ڈھنڈورا پیٹا جاتا۔
یہی وجہ ہے کہ اکثر بھارتی سیاستدان، برکھا دت جیسے صحافی اور دانشور مولانا کے مسئلے پر چینی حکومت کی حمایت نہ ملنے پر تلملا کر رہ گئے ہیں۔ وہ دراصل اس مسئلے کو محض دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔ حالانکہ اقتصادی مفادات اور سیاسی جغرافیائی تقاضوں پر مبنی آج کی دنیا میں معاملات کو محض سیاہ و سفید انداز میں پیش کرنا یا توقع رکھنا بے وقوفی نہیں تو سادگی ضرور ہے۔ موجودہ حالات میں بلاشبہ چین اور پاکستان ایک دوسرے کے ‘‘آہنی بھائی’’ بھائی بن کر ابھرے ہیں اور ان کی پرانی دوستی کو بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے نتیجے میں جنم لینے والے CPEC نے ایک غیر معمولی نہج پر پہنچا دیا ہے۔ یہاں تک تو معاملات ٹھیک ہوگئے، پاک چین دوستی کا امتحان بھی کامیاب رہا مگر اس کے فوراً بعد کے مراحل جلد از جلد توجہ اور عملی اقدامات کے متقاضی ہیں۔
یاد رہے کہ چین بحیثیت مجموعی اب تک مسعود اظہر کے معاملے پر چار مرتبہ ویٹو کا حق استعمال کر چکا ہے لیکن میرے اندازے کے مطابق یہ چین کا آخری ویٹو تھا چینی قیادت نے پاکستان کے ساتھ سیاسی اقتصادی اور عسکری تعاون پر مبنی طویل رفاقت کی لاج رکھتے ہوئے آخری مرتبہ بھارت کی کوشش کو ناکام بنایا ہے لیکن غالباً آئندہ مہینوں کے دوران ایک اور قرار داد آگئی تو چین کے پاس اس کا ساتھ دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ سوچنے کی بات ہے کہ کوئی ملک سینکڑوں ہزاروں ارب ڈالر کی بیرونی تجارت کو محض ایک شخص کی خاطر داؤ پر لگائے گا ؟ چین کو اگرچہ معلوم ہے کہ سرد جنگ میں پاکستان نے امریکہ اور اتحادیوں کا ساتھ دیا مگر اسے یہ بھی معلوم ہے کہ جرمنی، فرانس یا برطانیہ نے جائز ناجائز ہر مسئلے پر صرف امریکہ کا ساتھ دیا اور پاکستان کو زیر بار کرنے کی کوشش کی ہے مگر ایشیائی روایات کے مطابق اور اپنے طویل مدتی مفادات کے تابع چین نے بلاشبہ ان تمام ممالک کی مخالفت کے باوجود پاکستان کا اب تک سیسہ پلائی دیوار کی طرح ساتھ دیا ہے ، لیکن اب دو بڑے چیلنجوں سے عہدہ برا ہونا ہے۔
ایک طرف جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے ساتھ سفارتی سطح پر زور دار طریقے سے یہ مسئلہ اٹھانا ہے کہ وہ پاکستان کو بدنام کرنے کی ہر بھارتی کوشش کا حصہ کیوں بن جاتے ہیں، دوسرا اب جبکہ پاکستان کو ایک بڑی بریک مل گئی ہے اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا آئندہ اجلاس مئی میں ہونا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ چین اور دوسرے ملکوں سے کئے گئے وعدوں پر شد و مد کے ساتھ عمل کیا جائے۔ عسکریت پسند تنظیموں کے تنظیمی ڈھانچوں پر مکمل کنٹرول حاصل کر کے ان کے ورکرز کو قومی دھارے میں لانے کیلئے ایک جامع سیاسی سماجی اور اقتصادی منصوبہ تشکیل دیا جائے، محض دکھاوے کے اقدامات اور بلند و بانگ دعوئوں سے کچھ حاصل نہیں ہوگا بلکہ کچھ کر کے دکھانا ہوگا خود کو قابل اعتبار بنانے کیلئے اگر بے رحم اقتصادی مفادات کے اس خود غرض دور میں ہم نے انتہا پسند تنظیموں کو ریاست کے تابع کر کے انہیں سرحد پار کارروائیوں سے مکمل طور پر لاتعلق کرنے کا سامان نہ کیا تو نہ تو چین سلامتی کونسل کے آئندہ اجلاس میں ہمارا ساتھ دے گا اور نہ ہی ہم FATF کی گرے لسٹ سے نکل پائیں گے۔ ایسا نہ ہو کہ اپنی نااہلی بے عملی اور عدم اخلاص سے ہم چین جیسے معتبر اور انتہائی قابل اعتبار دوست سے محروم ہو کر اس ملک کے 22 کروڑ عوام کے خاص طور پر نوجوان نسل کے مستقبل کو دائو پر لگا دیں۔ اقتصادی ترقی اور بہتر حکومت کاری کو یقینی بنا لیا جائے تو اس کے ذریعے کئی بڑے مقاصد خود بخود حاصل ہو جائیں گے ۔