لاہور: (محمد حسن رضا ) بیوروکریسی کی تاریخ میں پہلی بار چیف سیکرٹری ہاؤس میں 5 سابق چیف سیکرٹریز سمیت حاضر سروس افسروں کا گٹھ جوڑ سامنے آیا ہے، مسلم لیگ ن کے انتہائی قریب افسروں کو بھی چیف سیکرٹری یوسف نسیم کھوکھر نے خصوصی طور پر مدعو کیا۔
اجلاس میں چیف سیکرٹری پنجاب یوسف نسیم کھوکھر، وفاقی سیکرٹری میاں مشتاق، سابق چیف سیکرٹریز نوید اکرم چیمہ، زاہد سعید اور قاضی آفاق، تسنیم نورانی، تیمور عظمت، جی ایم سکندر، ندیم حسن آصف اور موجودہ پرنسپل سیکرٹری ٹو وزیراعلیٰ راحیل صدیقی اور ڈاکٹر شجاعت، شمائل احمد خواجہ، جاوید اقبال اعوان، امتیاز تاجور، اسماعیل قریشی، اکبر درانی، سیکرٹری خزانہ حامد یعقوب شیخ سمیت متعدد افسروں نے شرکت کی۔
ذرائع کے مطابق بیٹھک میں افسروں نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب کابینہ میں بہت زیادہ اختلافات پائے جاتے ہیں، جن کو بہتر بنانا چاہیے۔ افسروں نے کہا کہ پنجاب کے افسروں کو بار بار تبدیل کرنے سے بہت مسائل پیدا ہو رہے ہیں، بیٹھک میں موجود بیوروکریسی نے کہا کہ پنجاب کے محکموں میں کام رک گئے، کئی معاملات میں سیاسی مداخلت ہو رہی ہے، بیوروکریٹس نے تجویز دی کہ موجودہ بیوروکریسی اور حکومتی عہدیداروں کو ایک پیج پر ہونا چاہیے۔
ذرائع کے مطابق وفاق اور پنجاب میں کچھ افراد اور افسروں کا درست انتخاب نہیں کیا گیا۔ معلوم ہوا کہ ایک افسر نے انکشاف کیا کہ بہت سارے معاملات تھے جن کو دیکھتے ہوئے یوسف نسیم کھوکھر نے سب کو کھانے پر اکٹھا کیا۔ ایک سابق چیف سیکرٹری نے بتایا کہ ہمیں یوسف نسیم کھوکھر نے کھانے پر بلایا تھا لیکن جو اخراجات کئے، پروٹوکول تھا وہ سرکاری تھا، اسی طرح وہاں پر بعض ایسے کچھ افسروں کو مدعو نہیں کیا گیا تھا جو اس وقت پی ٹی آئی کو سپورٹ کر رہے ہیں، مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے افسر بھی اس میٹنگ کا حصہ تھے۔
ایک اور افسر نے دعویٰ کیا کہ چیف سیکرٹری ہاؤس میں کھانے کے دوران بہت گفتگو ہوئی اور یوسف نسیم کھوکھر شاید یہ بتانا چاہتے تھے کہ ان پر پریشر ہے اور کچھ معاملات میں ان کی کچھ حکومتی عہدیداروں سے نہیں بن رہی ہے۔ بیوروکریٹس نے کہا ہے کہ انکی کابینہ کے ساتھ نہیں بنتی، پیسہ پنجاب میں نہیں ہے اور کچھ ایسے افراد جو عوامی نمائندے نہیں انکو ہمارے اوپر لاکر بٹھایا گیا۔ سابق سینئر بیوروکریٹس نے تجویز دی کہ جو قانون اور ریاست کے حق میں کام ہو وہ کیا جائے جو غیر قانونی یا غلط کام ہو اسے انکار کیا جائے یا پھر التوا میں ڈال دیا جائے۔ ایک افسر نے یہ بھی بتایا کہ 7 افسر دو سال کی چھٹی پر جانا چاہتے ہیں وہ اس طرح پریشانی میں کام کرنے کو تیار نہیں ہیں۔