لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) مقدمات سے تنگ اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں نے اپنی اپنی لیڈر شپ کو بچانے اور حکومت پر دباؤ بڑھانے کیلئے نئی حکمت عملی پر سوچ و بچار شروع کر رکھا ہے۔
مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے ذمہ داران کے درمیان ہونے والے رابطوں میں اس امر پر تو اتفاق رائے ہے کہ حکومت پر دباؤ بڑھانے کیلئے ایوانوں کے اندر اور باہر رائے عامہ کو متحرک کیا جائے اور مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کو ٹارگٹ کرتے ہوئے مسائل زدہ عوام کے اندر تحریک پیدا کی جائے لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا اپوزیشن اس صورتحال میں حکومت پر دباؤ کیلئے کسی بڑی تحریک کی پوزیشن میں ہے۔ اور کیا مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان اپنے اپنے لیڈرز کو بچانے کیلئے کوئی مشترکہ حکمت عملی طے بھی ہوئی ہے یا نہیں؟ اور کیا عوامی سطح پر حکومت مخالف تحریک کیلئے حالات سازگار بھی ہیں؟۔
سیاسی حالات و واقعات کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ حکومت مخالف جماعتوں خصوصاً مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں حکومت کو دباؤ میں لانے اور اپنی لیڈر شپ کو بچانے کیلئے تو تحریک موجود ہے لیکن مہنگائی، بے روزگاری اور غربت میں اضافہ کے باوجود بھی عام لوگ حکومت کے خلاف کسی تحریک کیلئے سڑکوں پر آنے کو تیار نہیں۔ اس کی بڑی وجہ خود بڑی جماعتوں سے عوام کی مایوسی ہے البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ آنے والے وقت میں خصوصاً بجٹ کے بعد اگر حکومت کی جانب سے عوام کے ریلیف کا کوئی بندوبست نہیں ہوتا اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں لگنے والی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے اقدامات نہیں ہوتے تو مہنگائی زدہ عوام سڑکوں پر آ سکتے ہیں۔ مگر ان کی قیادت کون کرے گا اور کون ان کی مؤثر آواز بنے گا اس حوالے سے ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ بڑی جماعتوں کی اولین ترجیح اپنی لیڈر شپ کیلئے ریلیف حاصل کرنا ہے اور بڑا سیاسی المیہ یہی رہا ہے کہ سیاست میں اہمیت اپنے اپنے سیاسی مفادات کو دی جاتی ہے ، مسائل کو نہیں۔
ایسی صورتحال میں جب ملک بدترین معاشی بحران سے دو چار ہے ہر آنے والے دن میں مہنگائی کا جن بے قابو ہوتا نظر آ رہا ہے لوگوں کے اندر مایوسی اور ملک میں بے یقینی جنم لے رہی ہے تو ایسے میں جس اپوزیشن کو عوام کی آواز کہا جاتا ہے وہ اپنی لیڈر شپ کو بچانے کے چکروں میں ہے فی الحال تو وہ اس میں کامیاب ہوتی نظر نہیں آ رہی، پنجاب کی سطح پر یہ تاثر عام ہے کہ یہاں کی اصل طاقت وزیراعلیٰ عثمان بزدار نہیں بلکہ خود وزیراعظم عمران خان ہیں، عوامی سطح پر لاوا پک رہا ہے یہ کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے لیکن عوام کے احساسات کی ترجمانی جو اپوزیشن کا فریضہ ہے وہ بھی ادا نہیں ہو پا رہا غالباً یہ سب کچھ اس حکمت عملی کا مظہر ہے جو پاکستان کے طاقتور طبقات نے پہلے سے طے کر رکھی اور انہیں معلوم تھا کہ اگر کرپٹ سیاستدانوں کے خلاف احتساب کا شکنجہ کسا گیا تو عمران خان کی حکومت کو وہ زیادہ دیر چلنے نہیں دیں گے لیکن وہ شاید یہ سمجھنے سے عاری تھے کہ اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کی حد تک تو حکمت عملی کامیاب ہو سکتی ہے، لیکن حکومت کو ڈلیور کرنا ہوتا ہے عوام کے زخموں پر مرہم لگانا پڑتی ہے لیکن حکومت کی اب تک کی کارکردگی کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ ڈلیور کرنے میں ناکام رہی۔
یہ صورتحال جاری رہی تو پھر لوگ اپوزیشن جماعتوں کی کال کا انتظار کئے بغیر ازخود سڑکوں پر نکلیں گے اور جب بھوک ننگ اور غربت سڑکوں پر نکلتی ہیں تو پھر ان کے آگے بند باندھنا مشکل ہو جاتا ہے اس بات پر زیادہ دیر تک حکومت نہیں چل سکتی کہ اسے اداروں کی سپورٹ حاصل ہے۔ اداروں کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جب عوام کے دل جلنے لگتے ہیں تو پھر وہ ایسی حکومتوں سے منہ پھیر لیتے ہیں جو ناکام ہو لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن ابھی تک ناکامی کے عمل سے دوچار ہیں۔