اسلام آباد: (دنیا نیوز) بلند وبانگ دعوے کرنے والی حکومت میں اکھاڑ پچھاڑ نے ایک نہیں ان گنت سوال کھڑے کر دیئے۔
اب یہ سوال بھی پوچھا جا رہا ہے کہ کابینہ کے اس رکن کو تبدیل کر دیا جائے جسے وزیر اعظم اپنی ٹیم کا اوپنگ بیٹس مین کہتے رہے ہوں، کہیں یہ اکھاڑ پچھاڑ جماعت کے اندر جاری کھینچا تانی کا نتیجہ تو نہیں، ایسا بھی نہیں ہے کہ فیصلہ صرف اور صرف کارکردگی کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔
اب یہ سوال بھی ذہنوں میں اٹھنے لگے ہیں کہ اس قدر قلیل عرصے میں اتنا بڑا فیصلہ معاشی محاذ پر حکومتی پسپائی اور اپنی ناکامی کا اعتراف نہیں ہے تو پھر کیا ہے ؟ کیا وزیراعظم وزرا کے کام سے غیر مطمئن رہے۔ کارکردگی کی بنیاد پر قلمدانوں کا فیصلہ کرنے والی تبدیلی سرکار کے وزیر تبدیل ہو جائیں ایک بڑا سوال ہے۔
ٹیم کو اعتماد میں لئے بغیر ایک دن میں اٹھا پٹخ نے کئی سوال کھڑے کر دیئے۔ تین روز قبل وزیر توانائی عمر ایوب، اسد عمر کی تبدیلی سے متعلق تردید کرتے نظر آئے۔ سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے بھی تبدیلیوں کی تردید کرتے ہوئے میڈیا کو ذمے دارانہ رپورٹنگ کا مشورہ دیا تھا۔
وزرا سمیت چند روز پہلے وزیراعظم نے بھی اسد عمر کی تعریف کی تھی پھر اچانک سب سے اہم کھلاڑی وزیر خزانہ اسد عمر کو آؤٹ کر کے ڈاکٹر حفیظ شیخ کو بطور مشیر خزانہ ان کر دیا گیا۔ فواد چودھری کی وزارت کو سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا قلمدان مل گیا۔ اعجاز احمد شاہ کابینہ میں بطور وزیر داخلہ ٹیم میں شامل ہوگئے۔
شہریار آفریدی کو وزیر مملکت برائے داخلہ سے وزیر مملکت سیفران بنا دیا گیا۔ غلام سرور خان سے وزارت پٹرولیم کا قلمدان لیکر ہوا بازی کا وزیر مقرر کر دیا۔ محمد میاں سومرو کے پاس وزیر نجکاری کا عہدہ ہو گا۔ اسد عمر سمیت چند دیگر وزرا کی وزارتیں تبدیل کرنے کے بارے میں چند روز سے پاکستانی میڈیا میں خبریں گردش کر رہی تھیں، تاہم وفاقی حکومت نے ان خبروں کو کئی بار مسترد کیا تھا۔