اسلام آباد: (دنیا نیوز) اسد عمر کے دور میں پیٹرول، بجلی، گیس مہنگی، روپیہ تنزلی کا شکار اور سٹاک مارکیٹ تین سال کی کم ترین سطح پر پہنچ گئی، جبکہ قرضوں میں بھی اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
پی ٹی آئی حکومت اقتدار میں آئی تو اسد عمر کو وزیر خزانہ کا قلمدان سونپ دیا گیا، ملک کے تمام معاشی چیلنجز سامنے رکھے گئے، بڑے فیصلے اور مشکل حالات کی طرف توجہ بھی دلائی گئی مگر اسد عمر کے دور میں معاشی اعشاریے مثبت ہونے کے بجائے مسلسل منفی ہی ہوتے چلے گئے۔
روپے کی قدر گرتی چلی گئی اور ڈالر تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔ انٹر بینک میں ڈالر 17 روپے 35 پیسے اضافے سے 141 روپے 40 پیسے، اوپن مارکیٹ میں ڈالر 19 روپے 50 پیسے اضافے سے 142 روپے پر فروخت ہونے لگا۔
اگست 2018 میں مہنگائی کی شرح 5 اعشاریہ 8 فیصد تھی جو مارچ 2019 میں بڑھ کر 9 اعشاریہ 4 فیصد تک پہنچ گئی، پیٹرول 3 روپے 65 پیسے اضافے سے 98 روپے 89 پیسے فی لیٹر اور ڈیزل 4 روپے 49 پیسے اضافے سے 117 روپے 43 پیسے فی لیٹر میں فروخت ہونے لگا جبکہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بھی اضافہ کیا گیا۔
بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث مرکزی بینک نے شرح سود 3 اعشاریہ 25 فیصد اضافے سے 10 اعشاریہ 75 فیصد کر دیا، شرح سود میں اضافے سے صنعتی ترقی کی شرح کو بھی بریک لگ گیا۔ بڑی صعتوں میں ترقی کی شرح جو گذشتہ مالی سال کے 8 ماہ میں 6 اعشاریہ 58 فیصد تھی، رواں مالی سال کے 8 ماہ میں گھٹ کر منفی 1 اعشاریہ 7 فیصد رہ گئی۔
معیشت کو چلانے اور زرمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دینے کی خاطر دوست ممالک جس میں چین، سعودیہ عرب اور متحدہ عرب امارت سے 7 ارب 10 کروڑ ڈالر کا نیا قرضہ لیا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ مقامی قرضے بھی لیے گئے۔ اس عرصے میں بیرونی قرضے 1663 ارب روپے اضافے سے 13221 ارب روپے جبکہ مقامی قرضے 3064 ارب روپے روپے اضافے سے 19482 ارب روپے تک پہنچ گئے۔
اسد عمر نے بطور وزیر خزانہ آئے تو ہر پاکستانی 145000 ہزار روپے کا مقروض تھا جو چند ماہ میں ہی 155000 ہزار روپے کا مقروض ہوگیا۔ تمام قرضے لینے کے باوجود بھی سٹیٹ بینک کے ذخائر 98 کروڑ ڈالر کمی کے بعد 9 ارب 24 کروڑ ڈالر کی سطح پر ہیں۔
اسٹاک مارکیٹ جو کسی بھی ملک کی معیشت کا آئینہ کہلاتی ہے، اسد عمر کے دور میں مارکیٹ 5 ہزار 635 پوائنٹس کی کمی کے بعد تین سال کی کم ترین سطح 36 ہزار 600 کے ارد گرد ٹریڈ ہونے لگی جس سے سرمایا کاروں کے لگ بھگ 1219 ارب روپے ڈوب گئے۔