لاہور: (دنیا کامران خان کے ساتھ) تحریک انصاف کی حکومت کے نویں مہینے کا آغاز ہوا ہی ہے کہ دھماکہ خیز صورتحال دکھائی دے رہی ہے کیونکہ عمران خان اس بات کا غیر علانیہ اعتراف کرتے نظر آرہے ہیں کہ اب تک کی ان کی حکومت کی کارکردگی ناکامی کی تصویر رہی ہے۔ وزیر اعظم نے اپنی کابینہ کے سب سے اہم کلیدی کھلاڑی وزیر خزانہ اسد عمر کو گھر بھیج دیا، یہ فیصلہ معاشی میدان میں شکست کا اعتراف ہے، اسد عمر عمران خان کی کابینہ کے انتہائی اہم کھلاڑی تھے اور ان کو عمومی طور پر ڈپٹی وزیر اعظم سمجھا جاتا تھا، وہ ای سی سی کے اجلاس کی صدارت کرتے جبکہ توانائی کمیٹی کے سربراہ بھی تھے، معیشت کے حوالے سے ان کے فیصلوں کی چھاپ ہر جگہ موجود تھی۔ وہ شخص جو آئی ایم ایف سے فیصلہ کن مذاکرات کر کے واپس آیا ہو اور اسے آتے ہی گھر بھیج دیا جائے یہ فیصلہ عمران خان کے لئے ایک بڑا چیلنج ابھرتا نظر آرہا ہے۔
اس وقت حکومت میں فیصلہ سازی کے حوالے سے تلاطم کی سی صورتحال ہے۔ دراڑیں نمایاں ہو کر سامنے آگئی ہیں اور واضح ہو گیا ہے حکمران جماعت شدید دھڑے بندی کا شکار ہے، اسد عمر کی رخصتی کی ایک وجہ یہ دھڑے بندی بھی ہے اس کا پرسوں اظہار ہوا تھا جب اسد عمر نے کابینہ کے اجلاس میں ایمنسٹی سکیم رکھی تھی تو کابینہ کے اکثر ارکان نے نہ صرف اس کو مسترد کر دیا بلکہ اس پر شدید غصے کا بھی اظہار کیا تھا، اس کے بعد وزیر اعظم عمران خان شاید اس فیصلے پر دوبارہ پہنچ گئے کہ اسد عمر کو ہر صورت فارغ کر دینا چاہئے کیونکہ وہ وزیر اعظم اور کابینہ کے ارکان کا اعتماد کھو بیٹھے تھے۔ خاص طور پر اس کی وجہ ایسٹ ڈیکلریشن سکیم بنی ہے۔ پارٹی میں مسائل اس سے کہیں زیادہ ہیں جو بظاہر نظر آرہے ہیں۔ ایک دھڑے کو جہانگیر ترین اور دوسرے کی قیادت شاہ محمود قریشی کرتے ہیں، اسد عمر شاہ محمود دھڑے سے تعلق رکھتے تھے۔ جہانگیر ترین اور اسد عمر کی بالکل نہیں بنتی تھی اور بالآخر جہانگیر ترین چھا گئے۔
اسلام آباد سے باخبر صحافی شہباز رانا کے مطابق ایمنسٹی سکیم فیصلہ کن مرحلہ نہیں تھی کیونکہ وزیر اعظم کابینہ میں خود اس کا دفاع کر رہے تھے، اسد عمر کی پوزیشن نیوٹرل تھی، چیئرمین ایف بی آر نے بھی اجلاس میں بار بار یہ بات کہی اس سکیم کا حکم وزیر اعظم کی طرف سے آیا تھا۔ در اصل یہ مسئلہ نومبر دسمبر 2018 سے چل رہا ہے، جہانگیر ترین نے غالباً جنوری 2019 میں ایک سنجیدہ کوشش کی تھی اور آئی ایم ایف کے سابق ڈائریکٹر، پاکستانی نژاد برطانوی شہری مسعود احمد کا نام متبادل کے طور پر پیش کیا تھا لیکن ان کی اس کوشش کو راولپنڈی اور اسلام آباد دونوں جگہ پسند نہیں کیا گیا، اسد عمر کا سٹائل تھا کہ وہ اتفاق رائے کی بنیاد پر فیصلے کرتے تھے آج تک جو بھی فیصلے ہوئے ان میں عمران خان، ڈاکٹر عشرت حسین اور عبدالرزاق داؤد شامل تھے، کسی مرحلہ پر جہانگیر ترین بھی شامل ہوتے تھے، وزیر اعظم کے ذاتی دوست عارف نقوی اور شجاعت ندیم بھی شامل ہوتے تھے اس لئے کسی ایک شخص کو آج کی صورتحال کا ذمہ دار ٹھہرانا سمجھ سے بالا تر ہے۔
یہ درست ہے کہ پی ٹی آئی حکومت میں آنے کے بعد بھی ایک جماعت نہیں، وفاقی کابینہ میں بھی دھڑے بندی ہے اور یہ اتنی ہے کہ عمران خان کو ایک ہی دن میں کابینہ کے دو اجلاس کرنے پڑتے ہیں، پہلے کابینہ کے باقاعدہ ایجنڈے کو نمٹاتے ہیں اس کے بعد ایک ڈیڑھ گھنٹے کے لئے وزرا اور وزیر اعظم کی بیٹھک ہوتی ہے تاکہ اندر کی لڑائیاں باہر نہ جائیں۔ ملکی معیشت وہیں کی وہیں کھڑی ہے، اب سب سے بڑا سوال یہ ہے کیا اسد عمر کے جانے کے بعد حکومت کی کارکردگی مزید گرجائے گی یا اوپر اٹھے گی، بنیادی سوال گورننس کا ہے جس میں صرف وزیر خزانہ شامل نہیں تھے۔ پاک چین راہداری پر کیا مسائل ہیں اس حوالے سے خسرو بختیار کی کیا ذمہ داری ہے ؟ برآمدات میں اضافہ نہیں ہوا تو اس کی رزاق داؤد پر کیا ذمہ داری ہے ؟ گیس کے کیا مسائل ہیں، غلام سرور کی کیا ذمہ داری ہے ؟ یہ سارے سوالات اپنی جگہ پر کھڑے ہیں اور اس کا مطلب ہے پی ٹی آئی کا گورننس کا ماڈل بری طرح پٹ چکا ہے۔ یہ صرف اسد عمر کا مسئلہ نہیں بلکہ پی ٹی آئی کی حکومت کی بقا کا سوال ہے۔
عمران خان نے فیصلہ کیا ہے وہ اپنی حکومت کو ایک نیا جنم دیں گے، اپنی ٹیم کی ناکامی کے برملا اعتراف کو انہوں نے عوام کے سامنے رکھ دیا ہے اور اس سلسلے میں بے رحمانہ انداز میں اپنی ٹیم کے ان کھلاڑیوں کو نکال دیا ہے جن کی کارکردگی سے وہ مطمئن نہیں تھے، عمران خان نے آج اس تنقید کا جواب دیا ہے کہ در اصل وہ تو مخلص ہیں، بڑی محنت کر رہے ہیں، دیانتدار ہیں، دنیا بھی ان کو مانتی ہے لیکن ان کی ٹیم کلک نہیں کر رہی ، یہ بیانیہ پورے پاکستان میں سنا جا رہا تھا کہ عمران خان کی ٹیم کام نہیں کر رہی۔ عمران خان نے فیصلہ کیا کہ وہ ڈنڈا اٹھائیں گے اور چلائیں گے۔ اپنے اوپننگ بیٹسمین اسد عمر کو چند گھنٹوں کے نوٹس پر وزارت خزانہ سے فارغ کر دیا، اسی طرح انہوں نے چند گھنٹوں کے نوٹس پر وزیر صحت عامر کیانی کو بھی فارغ کیا کیونکہ انہیں یہ خبر ملی تھی کہ دواؤں کی قیمتوں میں جو اضافہ ہوا ہے اس سلسلے میں دوا ساز کمپنیوں کا وزیر صحت کے ساتھ ملاپ ہوا تھا۔ انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ ماہرین کے ذریعے اپنی ٹیم کو ترتیب دیں۔
ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ جو پیپلز پارٹی کی حکومت میں وزیر خزانہ تھے، مشیر خزانہ کی حیثیت سے وزارت کو چلائیں گے ان کی بڑی ساکھ ہے اور دوسرا انہیں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی سمجھ بوجھ ہے اور وہ ان کو بہت اچھے انداز میں ڈیل کرسکتے ہیں، ڈاکٹر حفیظ شیخ ایک ٹیکنوکریٹ کے طور پر ان کی کابینہ میں شامل ہوں گے اسی طرح ڈاکٹر ظفر اللہ مرزا کو ایک مشیر کی حیثیت سے وزارت صحت سونپ دی گئی ہے گویا وہ یہاں بھی کسی سیاستدان کو یہ وزارت نہیں دینا چاہتے۔ انٹیلی جنس بیورو کے سابق سربراہ اور تحریک انصاف کے ممبر قومی اسمبلی بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ کو نیا وزیر داخلہ اور تحریک انصاف کی حکومت کا پہلا وزیر داخلہ مقرر کیا گیا ہے کیونکہ نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے اب حکومت کا یہ بنیادی ٹارگٹ ہے کہ پاکستان کو انتہا پسندی اور کالعدم تنظیموں کے چنگل سے آزاد کیا جائے۔ گویا عمران خان نے اپنی حکومت کو نیا روپ دینے کا فیصلہ کیا ہے، اطلاعات ہیں کہ وزیر اعظم ایک بورڈ تشکیل دے رہے ہیں جو معیشت، کاروبار، تجارت اور سرکاری ملکیت میں انٹرپرائز کے مشترکہ فیصلے کرے گا۔
اس لحاظ سے عمران خان کی حکومت نویں مہینے میں پہلا نہیں بلکہ دوسرا جنم لے رہی ہے، یہ ایک نیا جنم ہے اور عمران خان کو اس بات کا کریڈٹ دے سکتے ہیں کہ انہوں نے کھل کے اعلان تو نہیں کیا مگر مانا ہے کہ ان کی حکومت کام نہیں کر رہی تھی اور اسی حوالے سے انہوں نے اپنے قریبی وزرا کو فارغ کر دیا ہے۔ ماسوائے شاہ محمود قریشی کے ان کے لئے کوئی ہمدردی کی آواز بھی سامنے نہیں آرہی ،عمران خان دکھانا چاہتے ہیں کہ ان کی اپنی پارٹی پر گرفت مضبوط ہے ،وہ پارٹی اور حکومت کو اپنے لحاظ سے آگے بڑھائیں گے ،عمران خان چند دنوں میں ایران جائیں گے ،ایک طویل عرصہ کے بعد پاکستان کا وزیر اعظم ایران جا رہا ہے ، انہیں چین جانا ہے ،اطلاعات کے مطابق وہ برطانیہ بھی جائیں گے ،یہ پاکستان اور پی ٹی آئی حکومت کے لئے بہت اہم مرحلہ ہے۔