لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) حکومتی اور سیاسی محاذ پر وزیر خزانہ اسد عمر کے استعفیٰ کے حوالے سے خبروں کو خود اسد عمر نے سچ کر دکھایا اور ایک پریس کانفرنس کے ذریعے اپنا منصب چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انہیں توانائی کی وزارت کی آفر کی پیشکش ہوئی مگر انہوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ لہٰذا دیکھنا ہوگا کہ اسد عمر جو کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کے بعد وطن واپس آئے ان کے استعفے کی ٹائمنگ کیسی ہے ؟ ان کے استعفے کے اثرات ملکی معیشت کے حوالے سے فیصلوں پر کیا ہوں گے ؟ آنے والے بجٹ سے قبل معاشی منیجر کی تبدیلی حکومتی ساکھ پر تو اثر انداز نہیں ہوگی اور یہ کہ ان کے استعفے کی بڑی وجہ ان کے آئی ایم ایف سے رجوع کا فیصلہ تو نہیں بنا۔
اس امر پر دو آرا نہیں کہ تحریک انصاف کے برسر اقتدار آنے کے وقت ملکی معاشی صورتحال پر یشان کن تھی اور اس حکومت کو سب سے بڑا چیلنج بھی در پیش تھا۔ اس لئے بھی کہ خود عمران خان کی حکومت نے عوام کو بہت سی توقعات دلائی تھیں اور ان کے پٹرول، بجلی، گیس کی قیمتوں، قومی خزانہ لوٹ کر باہر لے جانے والوں سے رقوم کی واپسی، ایک کروڑ نوکریوں، 50 لاکھ گھروں سمیت متعدد دعوے ایسے تھے جن سے متاثر ہو کر لوگوں نے ان پر اعتماد کا اظہار کیا تھا لیکن اگر 8 ماہ بعد حکومتی کارکردگی پر نظر دوڑائی جائے تو اس حوالے سے حکومتی کارکردگی کو مایوس کن قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس لئے کہ خود حکومتی اقدامات اور ڈالر کی قیمت سمیت پٹرول، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے براہ راست اثرات مسائل زدہ عوام کی زندگیوں پر پڑے اور بجٹ سے پہلے ہی عوامی سطح پر ہونے والی چیخ و پکار اور اپوزیشن کے بیانات کے دباؤ کے باعث حکومت دفاعی پوزیشن میں آ گئی اور اسے مجبوراً اپنی کابینہ پر نظر ثانی کرنا پڑی۔ خصوصاً اسد عمر جنہیں عمران خان ایک ذہین آدمی کے طور پر متعارف کراتے ہوئے معیشت کی بحالی میں اس کے کردار کو سراہتے نظر آتے تھے انہیں ہی قربانی کا بکرا بنانا پڑا۔
ایسا کیوں ہوا ؟ یہ بہت اہم سوال ہے کیونکہ باوجود میڈیا کی سطح پر افواہوں کے باوجود خود اسد عمر دو تین روز پہلے استعفے سے متعلق یہ کہتے نظر آئے ‘‘ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے ’’ جس سے یہ ظاہر ہوا کہ وہ اسے خارج از امکان سمجھتے تھے۔ وزیر اطلاعات نے تردید بھی جاری کی جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ فیصلہ آخری وقت میں ہوا جس کے دباؤ میں ہوا کیونکر ہوا یہ اہم ہے اور لگتا یوں ہے کہ ملکی معاشی صورتحال پر بعض اعلیٰ سطحی مقتدر قوتوں کے تحفظات تھے، جس کے سامنے حکومت کو سرنڈر کرنا پڑا اور پھر اسد عمر جو عمران خان، ان کی تبدیلی کے سفر میں ساتھ رہنے کا عزم ظاہر کرتے نظر آتے ہیں انہوں نے متبادل وزارت کے طور پر توانائی کی وزارت بھی لینے سے انکار کر دیا۔ ایسے وقت میں جب بجٹ بھی قریب قریب ہے، اسد عمر جو آئی ایم ایف سے مذاکرات کر کے واپس لوٹے تھے ان کی وطن واپسی کے بعد ہی ان کا استعفیٰ خود حکومت کیلئے بھی پریشانی کا باعث ہو سکتا ہے۔ اسد عمر تو ایک رات پہلے ہی کامران خان کے شو میں یہ کہتے نظر آئے کہ اب مٹھی کھولنے کا وقت آ گیا ہے لیکن مٹھی کھولنے کی نوبت سے پہلے ہی ان کی چھٹی بہت کچھ ظاہر کرتی نظر آتی ہے۔
آئی ایم ایف سے ہونے والا معاہدہ توڑ چڑھ سکے گا ؟ آئی ایم ایف کے قرضوں کا تعلق صرف اقتصادی امور سے نہیں ہوتا بلکہ یہ سیاسی اور دیگر حساس معاملات سے جڑا ہوتا ہے اور یہ آئی ایم ایف ہی تھا جس نے نئی حکومت کے قیام کے بعدسے ہی سی پیک پر تحفظات ظاہر کئے، اس دوران میں ہی پاکستان کو ایف اے ٹی ایف میں دہشت گردوں کی مالی معاونت کا ملزم بنا کر کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا، ادھر آئی ایم ایف کی جانب سے ڈو مور کی گردان جاری رہی۔ پاکستانی عوام کی امریکہ کے خلاف مزاحمت کو کمزور کرنے کیلئے غربت ، بے روزگاری کا ایسا طوفان لایا گیا کہ عوام اس پوزیشن میں ہی نہ رہیں کہ ملکی مفادات کے پیش نظر کسی قسم کی مزاحمت کر سکیں اور اب جبکہ اسد عمر آئی ایم ایف سے مذاکرات کر کے آئے ہیں۔ کہیں کچھ ایسی شرائط تو مان نہیں لی گئیں جن پر قومی سلامتی کے اداروں کے تحفظات ہوں کیونکہ خود تحریک انصاف کی حکومت اس کے معاشی ماہرین عبدالرزاق داؤد سمیت دیگر یہ تجویز دیتے آئے ہیں کہ سی پیک پر عمل درآمد کو مؤخر کر لیا جائے پھر ایک سال کی تجویز بھی آئی لیکن قومی سلامتی سے متعلقہ ادارے دفاعی حوالے سے سی پیک کی اہمیت کو جانتے ہوئے اس پر کوئی دباؤ برداشت نہیں کر سکتے۔
حکومت کی آمد کے بعد اس حوالے سے تحفظات کے اظہار پر خود سپہ سالار چین کے دورہ پر گئے اور چینی صدر سے ملاقات میں سی پیک پر مطمئن کیا اور بعد ازاں وزیراعظم عمران خان کے دورہ چین کا شیڈول طے ہوا اب بھی جب وزیراعظم عمران خان کے دورہ چین کا شیڈول طے ہے کوئی ایسا معاہدہ تو طے نہیں ہوا جو سی پیک کے حوالے سے پاکستان کے مفادات کے تابع نہ ہو۔ لہٰذا اسد عمر کی وزارت خزانہ سے علیحدگی کے عمل کے ڈانڈے آئی ایم ایف سے مذاکراتی عمل تک جاتے ہیں اور آئندہ چند روز میں ظاہر ہو جائے گا کہ تبدیلی سرکار نے سب سے اہم اور با صلاحیت وزیر خزانہ کو کیسے تبدیل کیا اور وہ کوئی اور وزارت لینے سے گریزاں کیوں ہیں۔