ملک میں عملاً صدارتی نظام آگیا ؟

Last Updated On 20 April,2019 09:01 am

لاہور: (دنیا کامران خان کے ساتھ ) وزیر اعظم عمران خان نے اپنی کابینہ میں ڈرامائی تبدیلیاں کی ہیں اس سے پہلے ایک بحث سامنے آتی رہی ہے کہ ملک کے موجودہ پارلیمانی نظام میں وزیر اعظم کے پاس گنجائش نہیں کہ وہ ماہرین اور ٹیکنو کریٹ کے ذریعے حکومت کو چلائے اور اس پس منظر میں اس بحث نے جنم لیا تھا کہ ملک میں صدارتی نظام ہونا چاہئے۔

صدارتی نظام میں صدر کے پاس یہ چوائس ہوتی ہے کہ وہ ممبران پارلیمنٹ کی بجائے ماہرین کو نامزد کرے جیسا کہ امریکہ میں ہوتا ہے اسی پس منظر میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ کل پاکستان میں عملاً صدارتی نظام آگیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کا فیصلہ ہے کہ وہ اب ماہرین کے ذریعے حکومت چلائیں گے۔ اس کے لئے انہوں نے حکومت کے اہم ترین معاملات کے حوالے سے ٹیکنو کریٹس کی ایک نئی ٹیم تشکیل دے دی ہے اس کے اہم ترین کھلاڑی ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ ہوں گے۔ وہ کئی سال تک ورلڈ بینک میں اعلیٰ عہدوں پر ملازمت کرتے رہے ہیں۔ بینکنگ اور فنانس سیکٹر میں پالیسی سازی اور نجکاری میں ان کی مہارت ہے، دبئی میں وہ ایک ایکوٹی فنڈ چلاتے ہیں وہ ایک ماہر ٹیکنو کریٹ ہیں اور اچھی ساکھ کی حامل شخصیت ہیں۔

وزیر اعظم نے معیشت سے جڑے تمام امور سدھارنے کے لئے فیصلہ کیا ہے کہ وہ ان تمام امور کو ماہرین کے ایک بورڈ کے ذریعے چلائیں گے جو ان کے معاونین کا کام کرے گا۔ وزیر اعظم اس کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھیں گے انہوں نے اس کے لئے 5 ماہرین کا انتخاب کیا ہے جو اس بورڈ کے ممبر ہوں گے۔ سابق وزیر خزانہ شوکت ترین، ماہر ٹیکس امور شبر زیدی، سابق گورنر سٹیٹ بینک سلیم رضا، شہرت یافتہ بینکار صادق سعید اور شیر اعظم مزاری اس بورڈ کے رکن ہوں گے جبکہ جہانگیر ترین اس فورم کے کنوینئر ہوں گے۔ سابق وزیر خزانہ شوکت ترین فنانس میں ایم بی اے ہیں اور بینکاری کا 45 سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ 2008 کے بعد پاکستان کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے قرضہ دلانے میں اہم کردار ادا کیا۔

آکسفورڈ یونیورسٹی سے ماسٹر کرنے والے سلیم رضا کا بینکنگ اور مالیاتی شعبے میں 40 سال سے زائد کا تجربہ ہے وہ 1970 سے 2006 تک سٹی بینک سے منسلک رہے۔ 1989 سے 2006 تک مختلف ملکوں کے کنٹری مینجمنٹ سے وابستہ رہے اور سٹیٹ بینک کے 15 ویں گورنر رہے۔ سلیم رضا کریڈٹ و فنانس، ریئل اسٹیٹ اور گلوبل ایسٹ مینجمنٹ میں کاروباری تجربہ رکھتے ہیں پاکستان بزنس کونسل کے سی ای او بھی رہ چکے ہیں۔ شیر اعظم مزاری سٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک آسٹریلیا کی کنزیومر ریجنل بینکنگ کے سربراہ رہے ہیں۔ لندن کی انویسٹمنٹ اینڈ مینجمنٹ کمپنی سیبر کیپیٹل کے شراکت دار جبکہ سیبر ایڈوائزر کے منیجنگ پارٹنر بھی رہے وہ سٹی بینک میں بھی سینئر عہدوں پر فائز رہے ہیں اور ایک کامیاب بینکار کے طور پر افریقہ ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں کمرشل، کنزیومر اور ہول سیل بینکنگ کے امور انجام دیتے رہے ہیں۔

شبر زیدی پاکستان کے معروف چارٹرڈ اکائونٹنٹ اور 2013 مین سندھ کی نگران حکومت میں صوبائی وزیر رہے ہیں وہ معروف آڈٹ فرم اے ایف فرگوسن کے سینئر پارٹنر بھی ہیں، انسٹی ٹیوٹ آف چارٹرڈ اکائو نٹنٹ پاکستان کے سربراہ رہے ہیں، کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں، صادق سعید نامور بینکار اور بزنس مین ہیں جو یورپ افریقہ میں لہمین برادرز کی ایکسیکیوشن کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ صادق سعید نے ایم آئی ٹی سے فنانس میں ماسٹر کیا ہے وہ لہمین کے سی ای او رہ چکے ہیں بعد میں نمورا کے سی ای او بنے جہاں سے وہ جون 2010 میں ریٹائر ہوئے اس وقت وہ لندن کی ایک کیپیٹل فرم کے چیئرمین کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں وہ سندھ بینک کے بورڈ میں بھی شامل ہیں۔یہ وہ ماہرین ہیں جو وزیر اعظم کی معاونت کریں گے۔

معیشت کے تمام امور کے حوالے سے یہ سب سے طاقتور بورڈ ہو گا۔ حفیظ شیخ بھی اسی معاملے کا حصہ ہوں گے لیکن وہ براہ راست اس کے رکن نہیں ہوں گے اس کے کنوینئر جہانگیر ترین ہوں گے جو ہم کہہ سکتے ہیں کہ عمران خان کے بعد تحریک انصاف کی دوسری اہم شخصیت ہیں۔ پاکستان میں پیدا ہونے والی شوگر کا 15 فیصد جہانگیر ترین کے کارخانے بناتے ہیں۔ چونکہ وہ سپریم کورٹ سے نا اہل ہو چکے ہیں اس لئے رسمی طور پر اس بورڈ کا حصہ نہیں ہیں لیکن ان کا تجربہ، ان کی مہارت اس فورم کے ذریعے عمران خان تک پہنچے گا۔

دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے وفاقی کابینہ میں ردو بدل کے بعد اب پنجاب کابینہ میں بھی تبدیلیوں کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے لیکن عثمان بزدار کے حوالے سے تبدیلی کے آثار اب بھی نظر نہیں آرہے، یہ وہ تقرری ہے جس کے حوالے سے عمران خان مسلسل دباؤ میں رہے ہیں، خبریں ہیں کہ عمران خان نے حالیہ دنوں میں عثمان بزدار کو وارننگ دی تھی کہ وہ اپنی کارکردگی کو درست کر لیں لیکن فی الحال انھوں نے کوئی ایکشن نہیں لیا اور بظاہر لگتا ہے کہ ایکشن لینے کا کوئی ارادہ بھی نہیں ہے۔

اس حوالے سے دنیا نیوز کے اینکر حبیب اکرم نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کی کارکردگی پر وزیر اعظم کے اطمینان کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ پنجاب میں بیوروکریسی میں جن تبدیلیوں کا ذکر کیا گیا ہے در اصل وہ بھی عثمان بزدار کے کہنے پر نہیں ہو رہیں۔ پنجاب میں عمران خان کا اپنا پولیٹیکل سسٹم ہے جو ان تک اطلاعات پہنچاتا ہے۔ پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر پٹرولیم غلام سرور نے کہا کہ عمران خان جس پوزیشن پرکھلائیں گے، کھیلیں گے، پارٹی ورکر بن کر بھی کام کرنے کو تیار ہوں۔
 

Advertisement