لاہور: (امتیاز گل) وزیر اعظم عمران خان کے دورہ ایران کے بعد ان کے بیانات پر ذرائع ابلاغ میں ایک بحث چھڑگئی، مگر یہ ہرگز بامقصد نہیں ہے، کیونکہ بات کو اس کے درست تناظر میں دیکھنے کے بجائے اسے سیاست، جانبداری اور تعصب کی نذر کر دیا گیا ہے، حقیقت یہ ہے کہ جس وقت وزیر اعظم عمران خان تہران میں میزبان صدر حسن روحانی کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے تو ان کے ذہن پر متعدد معاملات اور سوالات کا بوجھ تھا۔
اندرونی معاملات کا علم رکھنے والے حلقوں کا کہنا ہے کہ بعض حساس امور پر دونوں ممالک کے درمیان بات چیت تو ہوئی تھی لیکن وہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے تھے، اس کے باوجود میزبان صدر روحانی نے کھلے عام یہ تاثر دیا تھا کہ ان معاملات پر اتفاق رائے ہوگیا ہے، ان میں دہشت گردی کے سدباب کیلئے سریع الحرکت مشترکہ فورس بنانے کا معاملہ بھی شامل تھا، بے شک اس معاملے پر دونوں ممالک کے مابین بات چیت ہوئی تھی لیکن اس تجویز پر مکمل اتفاق رائے ہونا ابھی باقی ہے، کیونکہ سفارتی حلقوں کے مطابق اس کا انحصار متعدد اہم امور پر ہے جن پر پہلے توجہ ضروری ہے، ان میں کالعدم تنظیموں کا معاملہ بھی شامل تھا، ان حلقوں کے مطابق اس پر تبادلہ خیال تو ہوا تھا لیکن صدر روحانی نے جو تاثر دیا وہ حقائق کے مطابق نہیں تھا۔
ایرانی صدر نے جب یہ کہا کہ دونوں ممالک دہشت گردی کے انسداد کیلئے مشترکہ فورس بنانے پر متفق ہوگئے ہیں تو وہاں موجود ہر شخص حیرت کے مارے دم بخود رہ گیا، ان میں وزیر اعظم عمران خان بھی شامل تھے، ایک افسر کے مطابق یہ بات صدر روحانی کی جانب سے جو شاید امریکی پابندیوں کی وجہ سے پریشان ہیں کرکٹ میں لوز ڈلیوری(LOOSE DELIVERY) کی طرح تھی، وزیر اعظم کے ساتھ تہران میں موجود فوجی افسران اور وزارت خارجہ کے حکام میں اس بات پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ میزبان صدر کے اس اظہار خیال کی وجہ سے وزیر اعظم کو ایک پیچیدہ صورتحال کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ نہایت تحمل اور عمدگی کے ساتھ اس سے نمٹنے میں کامیاب رہے۔ لیکن دوسری جانب کیا ہوا ؟ وزیر اعظم نے ‘‘ غیر ریاستی عناصر ( نان سٹیٹ ایکٹرز) اور ان کے خلاف مجوزہ کارروائی ’’ کے بارے میں جو بات کی اس پر ناقدین نے ایک طوفان کھڑا کر دیا۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ وزیر اعظم نے کہا کہ ‘‘ ہم کسی انتہا پسند تنظیم کو اپنی سرزمین استعمال نہیں کرنے دیں گے، ہم کسی کو یہ اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ ہماری سرزمین کو آپ کے خلاف کسی کارروائی کیلئے استعمال کرے ’’، اس بات کو عموماً غیر ملکی ذرائع ابلاغ نے زیادہ اجاگر نہیں کیا، یہ بھی واضح رہے کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ اورماڑہ میں کارروائی کرنے والوں نے ایرانی سر زمین پر بیٹھ کر اس کارروائی کی منصوبہ بندی کی تھی یہاں یہ ذکر ضروری ہے کہ تہران کی پریس کانفرنس میں ایرانی صدر نے روایتی سخت گیر لہجے میں یکطرفہ بات کرنے کی کوشش کی، انہوں نے پاکستان سے متعلق اپنے تحفظات کا اظہار تو کیا لیکن پاکستان کیلئے باعث تشویش معاملات اور موجودہ حالات میں اسے درپیش مشکلات کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا۔
ایرانیوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے ( چینی قیادت تو اس حقیقت کا پورا احساس کرتی ہے ) کہ پاک ایران سرحد کی دونوں جانب دہشت گردی ایک الجھا ہوا اور علاقے کی جغرافیائی و سیاسی صورتحال سے جڑا ہوا معاملہ ہے ، اب یہ ایرانی قائدین کی مجبوری ہے کہ وہ امریکہ، روس اور بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات اور معاملات کو علیحدہ رکھ کر پاکستان کے ساتھ اپنی سرحد پر ہونے والی گڑبڑ کا درست تناظر میں جائزہ نہیں لے سکتے، درحقیقت پورے خطے میں متصادم جغرافیائی اور سیاسی عوامل اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں، ان حالات میں پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے اور موجودہ صورتحال میں جو کچھ یہ کر رہا ہے اس سے زیادہ اور کیا کرسکتا ہے ؟۔
وزیراعظم عمران خان کا حالیہ دورہ ایران دو وجوہ کی بنا پر نمایاں اہمیت رکھتا ہے، اول تو یہ کہ دونوں ممالک کی اعلیٰ ترین قیادت نے پہلی مرتبہ سرحد پر دہشت گردی جیسے حساس معاملے سے متعلق بات چیت کی، دوسری اہم بات یہ کہ دونوں ممالک نے یہ بھی طے کیا کہ جس قدر جلد ہوسکے 920 کلو میٹر طویل سرحد پر زیادہ سے زیادہ سامان اور لوگوں کی آمد و رفت یقینی بنانے کیلئے 2 بین الاقوامی سرحدی راستے بنائے جائیں گے، حقیقت تو یہ ہے کہ یہ صورتحال دونوں ملکوں کے بہترین مفاد کے عین مطابق ہے، ایران سے یہ توقع بے جا نہ ہوگی کہ وہ پاکستان کے ساتھ دوستی کو یکطرفہ نہیں سمجھے گا، اسی طرح ایران کو یہ امید بھی نہیں رکھنی چاہیے کہ پاکستان اپنے جائز مفادات کو پیش نظر رکھے بغیر ایران کی خواہشات کو پورا کرسکتا ہے، کیونکہ پاکستان کیلئے، جو دہشت گردی کے عذاب، اپنی سرحد کے اندر غیر ملکی ایجنٹوں کی جانب سے ہلاکت خیزی اور سنگین اقتصادی بحرانوں کا شکار رہا ہے، یہ قطعی ممکن نہیں ہے کہ وہ محض ایران کی خوشنودی کیلئے اپنے پاؤں پر خود ہی کلہاڑی مار لے۔
خاص طور پر امریکہ اور ایران کے مابین جو مخاصمت جاری ہے اس کا تقاضا ہے کہ ایران کے ساتھ معاملات طے کرتے ہوئے پاکستان حد درجہ احتیاط سے کام لے، بلا شبہ ایران کے ساتھ تجارت بالخصوص تیل اور گیس کی درآمد پاکستان کیلئے اہمیت رکھتی ہے لیکن یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ اس کی وجہ سے کہیں اسے امریکہ کی جانب سے کسی سخت اقدام کا سامنا نہ کرنے پڑے۔