لاہور: (دنیا کامران خان کے ساتھ) ادویات کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے پر بہت ہنگامہ ہوا، وزیر صحت عامر کیانی کی چھٹی ہو گئی مگر آسمان سے چھوتی قیمتیں کم ہونی تھیں اور نہ ہوئیں۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بھی قیمتوں میں 30 سے 45 فیصد کمی کا فیصلہ کیا گیا لیکن دوا ساز کمپنیوں کی مضبوط لابی نے ایسا چکر چلایا ہوا ہے، حکومت کو گھن چکر کر دیا، وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو چکمہ دے کر پچھلے چار ماہ میں دواؤں کی قیمتوں میں چار دفعہ اضافہ ہو چکا ہے لیکن حکومت نے قیمتوں میں اضافے کے نوٹیفکیشن واپس نہیں لئے، نہ ہی فارماسیوٹیکل کمپنیوں کے خلاف کوئی ایکشن لے سکی۔ وزارت صحت اور ڈریپ نے ابھی تک سپریم کورٹ سے بھی رجوع نہیں کیا کہ وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے جس کی آڑ میں دواؤں کی قیمتوں میں اندھا دھند اضافہ کر دیا گیا اور دوا ساز کمپنیوں کے منافع میں چند گھنٹوں میں کروڑوں روپے کا اضافہ ہو گیا تھا۔
میزبان نے دواؤں کی قیمتوں میں اضافے کا پس منظر بتاتے ہوئے کہا سندھ ہائیکورٹ نے 23 ستمبر 2013 کو ادویات کے نرخ نہ بڑھانے کے نوٹیفکیشن پر سٹے آرڈر دے دیا جس سے قیمتیں دھڑا دھڑ بڑھنا شروع ہو گئی تھیں۔ فروری 2018 میں سابق چیف جسٹس نے قیمتوں میں اضافے کے خلاف از خود نوٹس لیا۔ سپریم کورٹ نے اگست 2018 میں ڈریپ کو قیمتوں کے کیسز 10 ہفتوں کے اندر نمٹانے کا حکم دیا تھا۔ اس حکم کے تحت ڈریپ نے اکتوبر 2018 میں قیمتوں میں 15 سے 35 فیصد تک اضافے کی اجازت دے دی۔ پی ٹی آئی حکومت میں دواؤں کی قیمتوں میں یہ پہلا اضافہ تھا، 11 جنوری 2019 کو ڈالر اور بجلی کے نرخوں میں اضافے کی بنیاد پر مزید 15 فیصد اضافے کی اجازت دے دی گئی۔ 31 دسمبر 2018 کو ڈریپ نے وزارت صحت کی منظوری سے 3 ایس آر اوز کے ذریعے خود 880 دوائوں کی اضافی قیمتیں مقرر کیں جس کے تحت عام دواؤں کی قیمتوں میں 15 فیصد اضافے کی اجازت دے دی اور 463 "ہارڈ شپ "ادویات کی قیمتوں میں 200 فیصد تک اضافہ ہوگیا تھا۔ قیمتوں میں یہ تیسرا اضافہ تھا۔
میزبان نے کہا دوا ساز کمپنیاں لاگت بڑھنے کا شور خوب مچاتی ہیں لیکن یہ بات نہیں بتاتیں کہ گزشتہ 15 سال میں ادویات بنانے کے کیمیکلز کی قیمتوں میں دنیا بھر میں 100 فیصد تک کمی ہو چکی ہے یعنی 7000 ڈالر فی کلو والا کیمیکل 70 ڈالر سے بھی کم ہو چکا ہے لیکن دوائوں کی قیمتیں کم ہونے کے بجائے پچھلے چار ماہ میں چھپر پھاڑ کر آسمان تک پہنچ گئی ہیں اور اس کے پس پردہ دواساز کمپنیوں کا منافع پورے شباب پر نظر آرہا ہے۔ ہمارے نمائندہ خصوصی حماد عامر کی رپورٹ کے مطابق گولی ہو یا کیپسول ،شربت ہو یا انجکشن یہ تمام ادویات مختلف کیمیکلز سے بنتی ہیں ان میں اہم کیمیکلز کی قیمتیں 2005 کے مقابلے میں 99 فیصد تک گر چکی ہیں، مثال کے طور پر دل کی بیماری کے لئے استعمال ہونے والی دوا کے اہم کیمیکل "لوسارٹن پوٹاشیم "کی قیمت 2005 میں 7700 ڈالر فی کلو تھی جو اب 61 ڈالر ہو چکی ہے، کولیسٹرول کنٹرول کرنے والی دوا میں استعمال ہونے والے کیمیکل "سنواسٹاٹن " کی فی کلو قیمت 25000 ڈالر سے کم ہو کر 230 ڈالر ہو گئی ہے۔ السر کی دوا کا اہم جزو "ایسومے پرازول" 600 ڈالر فی کلو کے بجائے اب 42 ڈالر فی کلو کے حساب سے مل رہا ہے۔
اسی طرح اس عرصے میں انفیکشن کی دوا کا اہم جزو "سیفیکزن" 1258 ڈالر فی کلو کے بجائے 145 ڈالر میں دستیاب ہے۔ ملک میں ڈالر مہنگا ہونے کا حساب کتاب لگا کر بھی دوا ساز کمپنیوں سے یہ سوال پوچھنا تو حق بجانب ہو گا کہ آخر کیوں خام مال کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ انھوں نے عوام کو منتقل نہیں کیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ قیمتیں کم کرنے کے بجائے دوا ساز کمپنیاں مختلف ادویات کی قیمتوں میں وقتاً فوقتاً ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی آشیر باد سے اضافہ کرتی رہی ہیں۔ فارما سیوٹیکل کمپنیوں کے مطابق یہ اضافہ ناگزیر تھا اور ہارڈ شپ کیسز میں کیا گیا لیکن کسی نے ان مریضوں کی ہارڈ شپ کے بارے میں نہیں سوچا جن کو ڈاکٹرکی بھاری بھرکم فیس کے علاوہ مجبوراً مہنگی دوائیں خریدنا پڑتی ہیں، فارما سیکٹر نے گزشتہ ایک دہائی میں سالانہ 15 فیصد ترقی دکھائی ہے 2002 کے مقابلے میں فروخت کا حجم 130 ارب سے بڑھ کر 400 ارب روپے سے تجاوز کر گیا۔ پھر ایک ہی دوا کے مختلف نرخوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
بلڈ پریشر کی ایک دوا کی گولی کی قیمت 10 روپے ہے اوردوسری کمپنی کی انہی اجزا سے بنی گولی کی قیمت 80 روپے ہے۔ قیمت کا اتنا فرق ؟ یہ کڑوی گولی نگلی نہیں جا رہی۔ سوال یہ ہے کہ ان کمپنیوں کو ان قیمتوں پر دوا فروخت کرنے کی اجازت کیوں دی گئی ؟ میزبان کے مطابق اب صورتحال یہ ہے کہ پچھلے 6 ماہ میں قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے دوائیں 300 فیصد تک مہنگی ہو چکی ہیں اور فارماسیوٹیکل کمپنیوں کا سالانہ بزنس 390 ارب روپے سے بڑھ کر 470 ارب روپے ہو جائے گا اور اس کا سارا کریڈٹ موجودہ حکومت کو جاتا ہے اور اس ہوش ربا اضافے پر فارما سیوٹیکل کمپنیوں کا ایک بال بھی بیکا نہیں ہوا۔ ماہرین کا کہنا ہے پاکستان میں 10 سے 15 ارب روپے کا خام مال آتا ہے لیکن کاروبار 390 ارب روپے کا ہوتا ہے پھر بھی رونا یہ ہے کہ دواؤں کی قیمتیں کم ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ کمپنیاں مخصوص ذرائع سے سستے خام مال کی قیمتیں زیادہ ظاہر کرتی ہیں۔ ملک میں دواؤں کے 70 ہزار برانڈ ہیں لیکن 85 فیصد سیلز پر 500 مشہور کمپنیوں کی اجارہ داری ہے، خام مال کی خریداری میں کثیر تعداد میں زر مبادلہ پاکستان سے باہر چلا جاتا ہے وزارت صحت اور ڈریپ عوام پر ہونے والے اس ظلم کو دیکھتی رہتی ہیں۔ دو روز قبل چیئرمین نیب نے دوائوں کی قیمتوں میں اس اضافے کا نوٹس لیا تھا اور اطلاعات تھیں کہ کرپشن کے الزام میں نیب وزارت صحت اور ڈریپ حکام کے خلاف متحرک ہو گیا ہے لیکن ایک گھن چکر ہے جو نظر آرہا ہے، دوا ساز کمپنیوں نے قیمتیں کم نہیں کیں پہلے وہ سندھ ہائیکورٹ میں گئیں جہاں وہ مقدمہ ہار گئی ہیں اب وہ اپیلٹ بورڈ میں جا رہی ہیں اور قیمتیں کم کرنے کو تیار نہیں ہیں دواساز کمپنیاں زندہ باد اور عوام رو رہے ہیں۔
اس حوالے سے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا ادویات کی قیمتیں بڑھنے پر وزیراعظم نالاں اور پریشان ہیں، ماہرین کی ٹیم کے ساتھ پوری صورتحال کا مکمل جائزہ لیا، وزارت صحت نے آڈیٹر جنرل سے رابطہ کیا۔ اگلے ہفتے 400 ادویات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کریں گے۔ ہم نے عام آدمی کی قوت خرید کو مدنظر رکھنا ہے، ان کا کہنا تھا دواؤں کی قیمتوں کو عوام کی قوت خرید تک لے کر آئیں گے لیکن وہاں لانا مشکل ہوگا جس سطح سے بڑھی تھیں۔ حکومت اور فارما سیوٹیکل کمپنیز کے درمیان اعتماد ختم ہوگیا، ایکسپرٹس کی ایک کمیٹی متعین کر رہے ہیں جو لانگ ٹرم پالیسی دے گی، وزیر اعظم نے ہدایت کی کہ اس مسئلہ کا ایک مستقل حل نکالا جائے۔