لاہور: (تجزیہ :سلمان غنی) حکومت کی عملاً ناکامی نے اپوزیشن کو زندہ کر دیا اور عید کے بعد حکومت مخالف مشترکہ تحریک کی راہ ہموار نظر آ رہی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کے افطار پر تمام اپوزیشن جماعتوں کے مشترکہ اجلاس اور مشترکہ حکمت عملی سمیت عید کے بعد احتجاجی تحریک چلانے کا فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ کوئی مشترکہ حکمت عملی آگے بڑھ رہی ہے۔ اس اتحاد میں یہ بھی طے کیا گیا ہے کہ عید کے بعد مولانا فضل الرحمن تمام حکومت مخالف جماعتوں پر مشتمل آل پارٹیز کانفرنس طلب کر کے مشترکہ حکمت عملی اختیار کریں گے۔ اس اجلاس کی اہم بات یہ تھی کہ مسلم لیگ ن کے وفد میں مریم نواز بھی شامل تھیں جو پہلی بار اس طرح سے کسی اپوزیشن کے مشترکہ اجلاس کا حصہ بنی ہیں اور ساری مجلس ہی مریم نواز او ربلاول بھٹو کے گرد گھوم رہی تھی۔
اجلاس میں دو اہم نکات پر گفتگو ہوئی جس میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ اور نیب کی جانب سے احتساب کے نام پر سیاسی مخالفین کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانا شامل تھا۔ یہ بھی طے کیا گیا کہ ہمیں اس تاثر کی بھی نفی کرنی ہے کہ اپوزیشن جماعتیں تقسیم ہیں اور ان کو صرف احتساب کے علاوہ کوئی کام نہیں ۔ حکومت نے عملاً اقتدار میں آنے سے پہلے جو بڑے بڑے تبدیلی کے حوالے سے دعوے کیے تھے ان میں کچھ بھی حاصل نہیں ہوسکا ۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ صورتحال سابق حکومت سے بھی زیادہ بگڑ گئی ہے۔ آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے اور کشکول نہ اٹھانے کی باتیں بھی سیاسی یو ٹرن ثابت ہوئیں اور اب جو عالمی مالیاتی ادارے سے معاہدہ ہوا ہے اس کے مطابق آنے والے چند ماہ میں لوگوں کی جہاں زندگی اور زیادہ مشکل ہوگی وہاں ان لوگوں کو بھی پتا چلے گا کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ عوام دشمنی پر مبنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام معاشی ماہرین کہہ رہے ہیں کہ حکومت کے پاس کوئی ایسا ٹھوس منصوبہ نہیں جو لوگوں کو معاشی میدان میں بڑا ریلیف دے سکے۔ بعض سیاسی تجزیہ کاروں کا موقف ہے حکومت کے پاس معاشی حوالے سے فیصلہ سازی کا کوئی اختیار نہیں، فیصلے کہیں اور ہو رہے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ساری صورتحال سے کیا اپوزیشن جماعتیں کوئی سیاسی فائدہ اٹھا سکیں گی، یہی اپوزیشن جماعتوں کا اصل امتحان ہے کہ وہ یہ ثابت کریں کہ وہ متحد ہیں اور حکومت مخالف تحریک چلاسکتی ہیں۔ حکومت کا خود بھی بڑا امتحان ہے کہ وہ اگلے چند ماہ میں لوگوں کو معاشی ریلیف نہیں دیتی تو اس سے اسکی اپنی حالت بھی غیر یقینی ہو جائے گی۔ مسلم لیگ ن پر مریم نواز کا کنٹرول بڑھ گیا ہے اور عملی طور پر مسلم لیگ ن کی تنظیم نو اور ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ غالب ہوتا جا رہا ہے۔ ن لیگ میں جو لوگ مفاہمت کی سیاست چاہتے تھے اب ان کا کردار محدود ہوگیا ہے، نواز شریف اور مریم نواز کے سیاسی بیانیہ کو اہمیت دی جا رہی ہے۔ مسلم لیگ ن نے خاموشی سے پس پردہ قوتوں کو پیغام دے دیا ہے کہ وہ اب موجودہ صورتحال میں خاموشی کے مقابلے میں مزاحمت کا کردار ادا کریگی اور اس میں مریم نواز کا کردار کلیدی ہوگا۔ مریم نواز اور بلاول بھٹو دونوں ہی نوجوان قیادت ہیں اور دونوں کا مستقبل میں سیاسی کردار اہمیت رکھتا ہے چونکہ اس وقت پاکستان سیاسی او رمعاشی حوالے سے جس بدترین صورتحال سے گزر رہا ہے اس میں ہمیں ایک بڑا قومی سیاسی اور معاشی اتفاق رائے درکار ہے جس کے بغیر ہم بحران سے نہیں نکل سکیں گے۔
حکومت جس انداز سے اپوزیشن جماعتوں کو دیوار سے لگانا چاہتی ہے اس سے ملک میں سیاسی استحکام نہیں ہوسکے گا۔ اس کا نتیجہ ایک بڑی محاذ آرائی کی صورت میں پیدا ہوگا جس کا نقصان ملک اور جمہوری سیاست کو ہوگا۔ اس لئے گیند حکومت کی کورٹ میں ہے کہ وہ محاذ آرائی کے بجائے مفاہمت کی سیاست کی طرف بڑھے اور اسی میں ملک اور حکومت کا بھی فائدہ ہوگا۔ وگرنہ دوسری صورت میں حالات زیادہ سنگین ہونگے۔