لاہور: (دنیا کامران کے ساتھ) عمران خان کی حکومت انتہائی کٹھن دور سے گزر رہی ہے، اس نے بہت زیادہ اکثریت نہ ہونے کے باوجود پہلے بجٹ کو منظور اور پھر اس پر عملدرآمد بھی کرانا ہے، معیشت کو دستاویزی بنانا ہے جو ایک اور ہمالیائی ٹاسک ہے، 5550 ارب روپے کے ٹیکس ہدف کو عبور کرنا ہے جونا ممکن بتایا جاتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف کی سخت شرائط کے تحت گیس اور بجلی پر سبسڈی ختم کرنی ہے ،گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی خبروں کے بعد یہ طے ہے اب آئی ایم ایف کی آندھی چلنا شروع ہو گئی ہے۔
پی ٹی آئی کی حکومت میں گیس اور بجلی کی قیمتیں دوسری بار بڑھائی جا رہی ہیں۔ دسمبر 2018 میں گیس کی قیمتوں میں 146 فیصد اضافہ کیا گیا جبکہ بجلی کی مد میں 25 فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے، اوگرا نے گیس کے ٹیرف میں 190 فیصد اضافے کی سفارشات ارسال کی ہیں جبکہ نیپرا نے بجلی کے ٹیرف میں 25 سے 36 فیصد تک اضافے کی تجویز دی ہے جن پر جولائی سے عملدرآمد ہوگا، اس طرح پی ٹی آئی کی حکومت میں گیس کے ٹیرف میں 336 فی صد اضافہ متوقع ہے اور بجلی کے نرخ میں 61 فیصد اضافہ ہو جائے گا۔
مجوزہ گیس ٹیرف میں زیرو ریٹڈ سمیت تمام صنعتوں اور کمرشل صارفین کے لئے گیس کی قیمت میں 31 فیصد اضافہ ہو جائے گا۔ گیس کے نئے ٹیرف کے نتیجے میں گھریلو صارفین کا گیس کا بل 285 سے بڑھ کر 422 روپے، 372 کا بل 519، 2300 کا بل 4000 جبکہ 3500 روپے کا گیس بل تقریباً 8000 روپے ہو جائے گا۔ اہم بات یہ ہے کہ تمام صنعتوں کے ٹیرف میں 31 فیصد اضافہ سے اشیا کی قیمتیں بڑھیں گی۔
سٹیل، فرٹیلائزر، سیمنٹ سیکٹر پر بھاری اثرات مرتب ہوں گے۔ کھاد کی بوری کی قیمت میں تقریباً 207 روپے اضافہ ہوگا۔ مہنگائی کی اس آندھی میں قصور آئی ایم ایف کا نہیں ہے، سابق وزیر خزانہ اسد عمر کا کہنا تھا ملک ڈیفالٹ ہوچکا تھا مگر اعلان نہیں کیا، اس لئے ہم آئی ایم ایف کے پاس گئے۔