لاہور: (دنیا کامران خان کے ساتھ) ایمنسٹی سکیم ختم ہونے میں اب صرف 6 دن رہ گئے ہیں، ایمنسٹی سکیم کا یہ آخری ہفتہ ہے لیکن نہ ہی کوئی کھڑکی توڑ رش ہے نہ کوئی خاص ولولہ دیکھنے میں آرہا ہے، کسی لحاظ سے بھی اچھی خبر نہیں ہے۔ بالخصوص پنجاب سے جو ردعمل سامنے آیا ہے وہ بہت حوصلہ شکن ہے، اس کے علاوہ معیشت کو دستاویزی بنانے کے جو اقدامات کئے جا رہے ہیں، اس میں بھی پیچیدگیاں پیدا ہو رہی ہیں، خرید و فروخت میں ہر انوائس کے لئے شناختی کارڈ کی شرط لگا دی گئی ہے۔
مختلف اشیا کے خام مال کے امپورٹرز، مینوفیکچررز، سپلائرز کے لئے یہ تقریباً نا ممکن ہے کہ وہ اپنے رجسٹرڈ خریدار ڈھونڈ سکیں یا اپنے گاہکوں سے پیسوں کے ساتھ شناختی کارڈ کی کاپی بھی لیں۔ سیمنٹ کے ڈیلرز اس پالیسی کے حوالے سے سیخ پا ہیں اور ڈیلرز کا رد عمل سامنے آیا ہے، سیمنٹ کے کاروبار کو گزشتہ روز سخت دھچکا لگا اور پاکستان سٹاک مارکیٹ میں تمام سیمنٹ کمپنیوں کے سٹاک اپنی انتہائی نچلی سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ حکومت کو تیاری کرنی ہوگی کہ اگر ایمنسٹی سکیم کے مطلوبہ نتائج سامنے نہیں آتے تو کیا حکومت کے پاس پلان بی بھی ہے ؟۔
حکومت نے اس سال ایف بی آر کو ٹیکس اکٹھا کرنے کا 5550 ارب روپے کا ہمالیائی ٹارگٹ دیا ہے یعنی وزیر اعظم ایک مشکل صورتحال سے گزر رہے ہیں لیکن یہ پاکستان کے لئے بھی مشکل گھڑی ہے۔ پاکستانیوں کو دستاویزی معیشت کا حصہ لازمی بننا چاہئے یہ ان کا قومی فریضہ بھی ہے اور انکے کاروبار کے فروغ کے لئے بھی ضروری ہے۔ لوگ ایف بی آر سے ڈرے ہوئے ہیں ان کو خدشہ ہے کہ ایف بی آر کے شکنجے سے نکلنا مشکل ہوگا، اس لئے وزیر اعظم عمران خان اور چیئرمین ایف بی آر کو یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ ان کا کتنا اعتماد بحال کرسکتے ہیں۔
اس حوالے سے سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس سے پہلے جو ایمنسٹی سکیمیں آئی تھیں ان میں بہت بلیک ہولز تھے مگر اب ماحول تبدیل ہو گیا ہے ایف اے ٹی ایف کی وجہ سے اب کیش ٹرانزیکشن نہیں ہوسکے گی اور ادائیگیاں بینکنگ چینل کے ذریعے ہی ہوں گی، لوگوں کو یہ پیغام جانا چاہئے کہ ڈیڈ لائن کے بعد 20 لاکھ سے زیادہ کیش میں ڈیل نہیں کرسکتے اگر کریں گے تو یہ ڈیٹا ایف آئی اے اور ایف بی آر کے پاس جائے گا۔ پاکستان کی تاریخ میں بینکوں نے پہلی دفعہ ایف بی آر کے ساتھ ڈیٹا شیئر کیا ہے دوسرے ایسی سکیموں میں ایک دو ماہ پہلے سے پیسے آنا شروع نہیں ہوتے۔ یہ پیسے عام طور پر آخری پانچ چھ دنوں میں ہی آتے ہیں ،ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہئے۔
سابق صدر ایف پی سی سی آئی زبیر طفیل نے کہا کہ اس میں آخری دو تین دن بہت اہم ہوتے ہیں، ہماری قوم کی عادت ہے کہ ہم ہر کام آخری دن کرتے ہیں اگلے پانچ چھ دنوں میں رد عمل آئے گا مجھے 30 سے 35 سال کا پرانا تجربہ ہے کہ لوگ ٹیکس گوشوارے آخری تاریخ سے ایک دن پہلے جمع کراتے ہیں 70سال سے قوم کی عادتیں بگڑی ہوئی ہیں۔
دریں اثنا میزبان کے مطابق مسلم لیگ ن کی قیادت دو مختلف سوچوں اور نظریات میں بٹ چکی ہے۔ اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ شہباز شریف پہلے دن سے مفاہمت کی سیاست پر گامزن ہیں جبکہ مریم نواز نے مزاحمت کا جھنڈا اٹھا رکھا ہے۔ سینئر رہنما خواجہ آصف اور احسن اقبال نے مریم نواز کی سوچ کی واضح حمایت کی ہے۔ اس حوالے سے احسن اقبال نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب حکومت کہہ رہی ہوکہ اپوزیشن میثاق معیشت کی آڑ میں این آر او مانگ رہی ہے تو پھر اس این آر او سے اپنا منہ کون کالا کرے گا ؟۔