لاہور: (روزنامہ دنیا) معروف تجزیہ کار ایاز امیر نے کہا ہے کہ دس ماہ کے بعد اب پتہ چل رہا ہے کہ کوئی حکومت نام کی چیز ہے، حکومت میں تھوڑی سی مضبوطی آگئی ہے،اپوزیشن اپنے خلاف ہونے والے اقدامات پر آہ و زاری کر رہی ہے۔
پروگرام تھنک ٹینک میں میزبان عائشہ ناز سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ نواز شریف کا کمال دیکھیں کہ وہ کرپشن کے الزام میں جیل کاٹ رہے ہیں مگر سرکاری گاڑی اپنے پاس رکھی ہوئی ہے۔ کل کیبنٹ ڈویژن نے جاتی امرا پر چھاپہ مارا اور گاڑی برآمد کر لی۔ پرانے وقتوں میں لوگ جانے سے پہلے خود واپس کردیتے تھے۔
سیاسی تجزیہ کار، روزنامہ دنیا کے گروپ ایگزیکٹو ایڈیٹر سلمان غنی نے کہا کہ پروڈکشن آرڈر جاری کرنا سپیکر کا استحقاق ہے، اسمبلی کے قواعد کے تحت انہیں یہ استحقاق حاصل ہے یہ وزیر اعظم کی سطح کی چیزیں نہیں ہیں ۔کبھی کھانا بند کر دیں یا ملاقاتوں پر پابندی ہو، پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسے نہیں ہوا۔ سوال یہ ہے کہ کیا وزیر اعظم اپنے مینڈیٹ کے مطابق آگے کی جانب چل رہے ہیں۔ کیا پروڈکشن آرڈر صرف ن لیگ والوں کے جاری ہوئے ہیں۔ کیا علیم خان، سبطین خان پروڈکشن آرڈر پر نہیں آئے۔ وزیر اعظم کی ہدایات پر رولز تبدیل نہیں ہوسکتے اگر انھوں نے کچھ چیزیں تبدیل کرنی ہیں تو انھیں اسمبلی میں پیش کریں۔
انھوں نے کہا کہ سیاسی روایات اور اقدار کو قائم رہنے دینا چاہئے۔ وزیر اعظم کو دل بڑا کرنا چاہئے۔ انھوں نے کہا کہ یہ باری کا بخار ہے ،ماضی میں جنھوں نے کچھ کیا وہ آج بھگت رہے ہیں اور آج جو کچھ ہورہا ہے آنے والے وقت میں انھیں سامنا ہوگا۔
ممتاز تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری نے کہا کہ حکومت بجٹ کی منظوری اور آئی ایم ایف کے پروگرام کے بعد پر اعتماد دکھائی دے رہی ہے ۔اب ٹیکس کی گرفت سخت ہوئی ہے اس کی وجہ سے مسائل نظر آتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ پروڈکشن آرڈر سپیکر کی صوابدید ہے اور سپیکر اس وقت جاری کرتا ہے جب وہ یہ سمجھے کہ متعلقہ رکن کی ایوان میں موجودگی ضروری ہے۔
اسلام آباد سے دنیا نیوز کے بیورو چیف خاور گھمن نے کہا کہ حکومت کی معاملات پر گرفت مضبوط ہو رہی ہے میں شروع دن سے پر امید تھا کہ احتساب کا عمل تیز ہوگا۔ اپوزیشن چیخ و پکار کر رہی ہے کہ اس کے خلاف انتقامی کارروائی ہو رہی ہے اس کا حقیقت سے تعلق نہیں ہے۔