عرفان صدیقی کی گرفتاری نے ہر ذی ہوش شخص کو ہلا کر رکھ دیا

Last Updated On 30 July,2019 08:52 am

لاہور: (دنیا نیوز) میزبان 'دنیا کامران خان کے ساتھ' کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے دوران جن واقعات نے ان کی حکومت پر منفی اثرات ڈالے ہیں، ان میں شاید سب سے سنگین واقعہ جمعہ کی شب ہوا جب نواز شریف کے سابق مشیر عرفان صدیقی کو رات 11 بجے ان کے گھر سے گرفتار کر لیا گیا اور ان کو ہتھکڑیاں پہنا دی گئیں۔ عرفان صدیقی پر الزام تھا کہ انھوں نے کرایہ داری ایکٹ کی خلاف ورزی کی ہے اور کرائے کی دستاویز کو تھانے میں رجسٹر نہیں کرایا۔ ہفتے کو ایک اور پیش رفت ہوئی جوڈیشل مجسٹریٹ مہرین بلوچ نے انکی بریت کی درخواست مسترد کر دی اور 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھیج دیا۔

میزبان کا کہنا تھا کہ اس واقعہ نے ملک بھر میں ہر ذی ہوش شخص کو ہلا کر رکھ دیا، اس کے اثرات ہوئے اور پھر ایک غیر معمولی واقعہ ہوا جب اتوار کو محترمہ مہرین بلوچ نے عرفان صدیقی کی ضمانت کی درخواست کی سماعت کی اور انہیں رہا کر دیا۔ میزبان کے بقول اس واقعہ نے عمران خان کی حکومت پر انمٹ نقش چھوڑا ہے۔ وزیر اعظم اور حکومت کے بڑوں کو اس واقعہ کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا، یہ پتہ نہیں چل سکا کہ پولیس نے یہ کارکردگی کیوں دکھائی۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ عرفان صدیقی مریم نواز کی تقاریر لکھتے ہیں اس حوالے سے اطلاعات اپنی جگہ لیکن ان کو کرایہ داری ایکٹ کی خلاف ورزی پر جس طرح گرفتار کیا گیا حکومت کے بڑے بھی اس کا دفاع نہ کر پائے۔

وزیر اعظم کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان نے اس حوالے سے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وزیر اعظم نے سب سے پہلے اس واقعے کا نوٹس لیا۔ حکومت اس میں مدعی بنی اور اڈیالہ جیل سے عرفان صدیقی کی رہائی ہوئی۔ ایک عام شہری کے ساتھ بھی اگر اس طرح ہوتا تو وزیر اعظم کا اس ضمن میں بھی یہی رول ہوتا۔ پولیس کا نظام سیاست زدہ کیا گیا اور ادارے تباہ کئے گئے ہیں۔ پولیس کا موقف ہے کہ کرایہ نامہ پر عرفان صدیقی نے جعلی دستخط کئے ہیں۔ ایک سوال پر معاون خصوصی نے کہا کہ وزیر اعظم نے اس واقعہ کی رپورٹ طلب کی ہے۔ اگر یہ صحیح ہوا ہوتا تو حکومت اس میں مدعی کیوں بنتی۔ جیل کے دروازے چھٹی والے دن کیوں کھلتے ؟ یہ سارے عوامل ظاہر کرتے ہیں کہ چیزیں صحیح نہیں ہوئی تھیں، ان کے تدارک کے لئے حکومت نے اپنی ذمہ داری ادا کی ہے۔
 

Advertisement