لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمہ اور مقبوضہ وادی میں مسلسل کرفیو کے عمل کے خلاف پاکستان کی جانب سے سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس کے مطالبہ کو پذیرائی ملی۔ اجلاس بلانے کے خلاف بھارت نے اپنا سارا زور لگایا مگر اس میں ناکام رہا، پانچ دہائیوں کے بعد کشمیر کے ایشو پر بلایا جانے والا یہ اجلاس کس حد تک کارگر ثابت ہوگا ! عالمی طاقتیں اس اعلیٰ سطحی فورم پر بھارت کے غاصبانہ قبضہ اور کشمیریوں پر روا رکھی جانے والی ظلم و بربریت کی تاریخ پر کیا طرز عمل ظاہر کرتی ہیں اور بھارت پر اس کے فیصلے کس حد تک اثر انداز ہوں گے اور کیا عالمی طاقتیں اس صورتحال کا ادراک رکھتی ہیں جو مودی سرکار نے مقبوضہ وادی کشمیر میں روا رکھی ہے۔ اس حوالے سے یہ اجلاس اہم ہوگا۔
اجلاس کا بلایا جانا ہی پاکستان کی سفارتی محاذ پر بڑی کامیابی ہے جس سے کشمیر ایشو کو عالمی سطح پر پذیرائی ملی اور اجلاس کے ذریعے دنیا بھر کی عالمی قوتوں کے سامنے وہ صورتحال تو ضرور آئے گی جو مودی سرکار مقبوضہ وادی کے اندر روا رکھے ہوئے ہے۔ اس حوالے سے بھارت کی وہ تمام کوششیں اور کاوشیں دھری کی دھری رہ گئیں جو اس نے آزادی کی اس تحریک اور جدوجہد سے توجہ ہٹانے اور اسے پاکستان کے ساتھ منسلک کر رکھی تھیں۔ اجلاس کے شرکا ایشو پر اپنی اپنی آرا کا اظہار کرینگے، چین نے تو کشمیر اور بھارتی طرز عمل پر اپنا مؤقف ظاہر کر دیا، یقیناً اجلاس میں وہ اس کا اظہار ضرور کرے گا۔ کشمیر کے حوالے سے پیدا شدہ صورتحال پر ہنگامی اجلاس بلانے میں بھی چین کے کردار کو سراہا جانا چاہئے۔
روس نے اپنے تحفظات ظاہر کئے ہیں مگر اس کی جانب سے کھلے طور پر پاکستانی مؤقف کی حمایت کا امکان نہیں۔ فرانس کے ساتھ بھارت کے مضبوط تجارتی اور سفارتی تعلقات ہیں، البتہ امریکی طرز عمل اور مؤقف سب سے اہم ہوگا کیونکہ اس کی جانب سے نئی پیدا شدہ صورتحال پر تشویش تو ظاہر کی گئی مگر وہ کھلے طور پر بھارت کو مورد الزام ٹھہرانے سے گریزاں ہے، اب جبکہ امریکی صدر نے کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی تو یہ بھارت ہی تھا جس نے اس کے ثالثی کے عمل کو بھی ماننے سے انکار کیا لیکن پھر بھی انہوں نے اپنا وزن کسی ایک پلڑے میں ڈالنے سے انحراف کیا اور اپنے روایتی مؤقف پر قائم رہا کہ دونوں ممالک بیٹھ کر اپنے تنازعات کے حل کی راہ نکالیں۔
اجلاس میں ویٹو کے خدشہ کی بات بھی ہو رہی ہے۔ ہمیں یہ بھی مد نظر رکھنا ہوگا کہ فلسطین کے مسئلے پر سینکڑوں اجلاس بلا کر اسے دنیا کے نقشے سے مٹا دینے والی سلامتی کونسل نے 50 برس بعد یہ اجلاس بلایا، اس کے پیچھے بھی سلامتی کونسل اسرائیل کی جانب سے شام کی گولان کی پہاڑیوں اور یروشلم کو ہڑپ کرنے پر بھی متعدد اجلاس بلا چکی ہے۔ لہٰذا بڑی توقعات قائم نہیں کرنی چاہئیں۔ یہ امکان ضرور نظر آ رہا ہے کہ پاکستان کی تحریک پر بلایا جانے والا اجلاس اس حد تک نتیجہ خیز ہو سکتا ہے کہ اجلاس میں مقبوضہ وادی کے اندر بھارتی قبضہ اور اس کے بعد پیدا شدہ صورتحال پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے بھارت کو اپنے طرز عمل پر نظر ثانی اور خصوصاً کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمہ کے اقدام پر از سر نو غور پر زور دیا جا سکتا ہے اور اسے بھی موجودہ صورتحال میں سفارتی محاذ پر ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا سکے گا کیونکہ اصل مسئلہ بھارت کی جانب سے اس کے غیر قانونی اقدامات اور خصوصاً کشمیریوں کی نسل کشی کیلئے اٹھائے جانے والے ہتھکنڈوں کے حوالے سے اسے دفاعی محاذ پر لانا ہے اور پاکستان کے مؤقف میں اتنی جان ہے کہ دنیا کو کشمیر کے مسئلہ پر اپنے اپنے کردار کی ادائیگی پر مجبور کیا جائے۔
دنیا جو خود کو انسانی حقوق کی ضامن سمجھتی ہے، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر حرکت میں آتی ہے اور انسانی حقوق کی ان خلاف ورزیوں پر شور مچاتی اور ان کے خلاف اقدامات پر زور دیتی ہے اب اس کا امتحان اور کیس پاکستان کو پیش کرنا ہے اور عالمی طاقتوں کو باور کرانا ہے کہ
دنیا کے منصفو، سلامتی کے ضامنو
کشمیر کی جلتی وادی میں بہتے ہوئے لہو کا شور سنو
انہیں جھنجوڑنا ہے کہ کشمیریوں کیلئے حق خود ارادیت کا حق خود انہیں اقوام متحدہ کی قراردادوں نے دیا ہے جس کیلئے خود ہندوستان کی قیادت نے اقوام متحدہ سے رجوع کیا تھا۔ سیکولر ازم کا پردہ بھی چاک ہو چکا ہے اور آج کشمیر میں آزادی اور کشمیریوں کے درمیان واحد رکاوٹ یہ بندوق بردار بھارتی فوجی ہیں۔ اگر چہ ان کے پاس لاکھوں کی تعداد میں بندوقیں ہیں مگر وہ کشمیریوں کے سچ کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے کیونکہ تاریخ میں ثابت ہو چکا ہے کہ سچ کو قتل نہیں کیا جا سکتا۔ یہی سچ چھپانے کیلئے کشمیر کی تقسیم کا کھیل کھیلا گیا اور آج نئی پیدا شدہ صورتحال سے ظاہر ہو رہا ہے کہ یہ تقسیم خود نریندر مودی، ان کی حکومت کے گلے پڑ رہی ہے۔ تمام تر تحفظات کے باوجود اقوام عالم بھارت کے مکرو فریب اور جھوٹے پراپیگنڈے کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔
5 اگست کے غیر قانونی اقدام کے بعد بین الاقوامی میڈیا کی رپورٹس نے خود بھارت کے مکروہ چہرے کو بے نقاب کر دیا ہے، حالات و واقعات بتا رہے ہیں کہ کشمیری بھارت کا تسلط قبول کرنے کو تیار نہیں۔ کشمیریوں کو بھارت اور بھارتی افواج سے نفرت ہے اور کشمیر میں عملاً ایک بغاوت کا سامنا ہے۔ نریندر مودی سرکار سے کشمیر بارے اچھی توقعات ظاہر کرنے والے وزیراعظم عمران خان ان کی حکومت اور ادارے یکسوئی اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کشمیر کاز اور خود نہتے و مظلوم کشمیریوں کے ساتھ کھڑے نظر آئے اور قوم کے اندر بھی اس حوالے سے اتحاد و یگانگت دیکھنے میں آئی۔ یوم آزادی کو یوم یکجہتی کشمیر اور بھارتی یوم آزادی کو یوم سیاہ کے طور پر منانے کے اقدام سے پالیسیوں کا رخ متعین ہو گیا اور ظاہر ہوگیا کہ اب کشمیر سمیت دیگر ایشوز پر بھارت سے کسی خیر کی توقع نہیں، ادھر ابھی تک قومی اتفاق رائے کے حوالے سے حکومت اپوزیشن کے لئے لچک دکھانے کو تیار نہیں، حکومت شاید نئی پیدا شدہ صورتحال پر یہ سمجھنے سے گریزاں ہے کہ کشمیر کی دھماکا خیز صورتحال سے نمٹنے کا عمل ون ڈے میچ نہیں یہ باقاعدہ ایک ٹیسٹ میچ ہے یہ ہماری صلاحیتوں کا بڑا امتحان ہے۔ حکومت اکیلے آگے چل نہیں سکتی۔ اس کے لئے اپوزیشن کا ساتھ ضروری ہے اور اپوزیشن کی بھی کشمیر کاز اور کشمیریوں سے کمٹمنٹ ڈھکی چھپی نہیں مگر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ڈیڈ لاک ہے کہ ٹوٹنے کا نام نہیں لے رہا۔ ایسا ہو نہیں سکے گا کہ ملک کے اندر حکومت اور اپوزیشن میں محاذ آرائی اور تناؤ رہے اور بیرونی محاذ پر ہم اپنا کیس مؤثر اور مضبوط بنیادوں پر پیش کر سکیں۔ لہٰذا کشمیر کاز اور بھارت کے جارحانہ طرز عمل سے نمٹنے کیلئے جس قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہے وہ اپوزیشن کے بغیر ممکن نہیں اور اس کی بنیادی ذمہ داری حکومت کی ہوتی ہے لہٰذا اب دیکھنا ہوگا کہ حکومت اور اپوزیشن اپنے اپنے تحفظات کے باوجود سیاست کو چھوڑ کر کشمیر کاز اور ملکی مفادات پر کون پہلے قدم اٹھاتا ہے، جو وقت کی اہم ضرورت ہے۔