اسلام آباد: (دنیا نیوز) سپریم کورٹ نے جج ارشد ملک ویڈیو کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔ عدالت نے وفاقی حکومت کو جج ارشد ملک کی خدمات فوری طور پر واپس کرنے کا حکم دے دیا۔
چیف جسٹس کے حکم پر اٹارنی جنرل نے رپورٹ کی سمری پڑھ کرسنائی۔ چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ارشد ملک کو واپس نہ بھیج کر تحفظ دے رہی ہے، ایسے کردار کے حامل جج کو بہت لوگ بلیک میل کر سکتے ہیں، اب ویڈیو حکومت کے پاس ہے وہ جج کو بلیک میل کر سکتی ہے، کل ویڈیو کسی سائل کے ہاتھ لگی تو وہ بھی جج کو بلیک میل کر سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا جج ارشد ملک کے کردار کے حوالے سے بہت سی باتیں دیکھنے والی ہیں، عدلیہ کی حد تک معاملہ ہم خود دیکھیں گے، حکومت ارشد ملک کو واپس بجھوائے تاکہ لاہور ہائیکورٹ ان کے خلاف محکمانہ کارروائی کر سکے، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کو دیکھنا ہوگا کہ کیا ایسے شخص کو جج رکھا جا سکتا ہے یا نہیں۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کسی فریق نے تاحال ہائی کورٹ میں کوئی درخواست نہیں دی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ویڈیو جب تک ہائی کورٹ میں پیش نہیں ہوگی اسکا کوئی فائدہ نہیں، فوجداری قانون کا اطلاق ویڈیو اصل ثابت ہونے پر ہو گا، رپورٹ میں تسلیم کیا گیا ویڈیو آڈیو ریکارڈنگ الگ کی گئی، آڈیو، ویڈیو اور سب ٹائٹل کو الگ الگ جوڑا گیا، جس کو ویڈیو کا فائدہ ہو رہا ہے اسے عدالت میں پیش کریں۔ سماعت مکمل کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ جج ویڈیو سکینڈل کیس کا فیصلہ 2 سے 3 روز میں سنایا جائے گا۔
ادھر دنیا نیوز نے جج ارشد ملک ویڈیو سکینڈل کے متعلق سپریم کورٹ میں پیش ایف آئی اے تحقیقاتی رپورٹ کی تفصیلات حاصل کر لیں۔ سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق ایف آئی اے نے شہباز شریف سے سوال کیا کہ پریس کانفرنس میں مریم صفدر کا مخاطب کونسا ادارہ تھا ؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ مریم سے پوچھیں۔
شہباز شریف نے بیان میں کہا جج کی ویڈیو کا مریم صفدر نے پریس کانفرنس سے چند گھنٹے قبل بتایا، ارشد ملک کی قابل اعتراض ویڈیو دیکھی نہ اس کا علم ہے، مریم صفدر نے آڈیو اور ویڈیو الگ الگ ریکارڈ کرنے کا بتایا۔ احسن اقبال، خواجہ آصف اور عطا اللہ تارڑ نے بھی دوران تفتیش شہباز شریف والا موقف اپنایا۔
ایف آئی اے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جج ارشد ملک نے رواں سال دو عمرے کئے، وہ 23 مارچ سے 4 اپریل 2019 اور 28 مئی سے 8 جون تک سعودی عرب میں رہے۔ مریم نواز نے اپنے بیان میں کہا جج ارشد ملک کی 16 سال قبل بنائی گئی ویڈیو دیکھی نہ حاصل کی، جج کی مبینہ ویڈیو 2003 میں ملزم میاں طارق نے بنائی، ایف آئی اے نے ویڈیو کا فرانزک آڈٹ بھی کرا لیا۔