لاہور: (دنیا میگزین) آج یکم ستمبر 2019ء ہے۔ 1965ء کی صورتحال سوچی سمجھی عالمی سازش تھی۔ جنگ کی کھچڑی 1964ء میں پکنا شروع ہوئی تھی۔ جب بھارت کی انتہا پسندانہ سوچ دونوں ممالک میں تصادم کا سبب بن گئی تھی۔
یہ جنگ اچانک اور راتوں رات شروع نہیں ہوئی تھی۔ بھارت کی اپریل سے جاری سرحدی خلاف ورزی اس کی عالمی سازشوں کا نتیجہ تھی۔ عالمی سیاسی حالات ہمارے حق میں نہ تھے۔ یورپی ممالک نے پاک چین دوستی کی وجہ سے اپنا تمام وزن بھارت کے حق میں ڈال دیا تھا۔
ایک ایسا ماحول پیدا کر دیا گیا تھا جس میں پاکستان کا دفاع انتہائی مشکل ہو گیا تھا۔ ہمارے پاس 4 ہفتے اور بھارت کے پاس 12 ہفتے کا جنگی سازوسامان موجود تھا۔
بھارت کو معلوم تھا کہ پاکستان کے پاس اسلحہ کی کمی ہے۔ جو اسلحہ تھا اس پر بھی شدید پابندیاں عائد تھیں۔ امریکا نے اسلحہ بھارت کے خلاف جنگ میں استعمال کرنے سے روک دیا تھا۔
اول تو ہمیں اس شرائط پر اسلحہ لینا ہی نہیں چاہیے تھا کیونکہ ہم چین کے دشمن ہرگز نہ تھے اور دوسرے کسی ملک کے ساتھ جنگ کا امکان سرے سے موجود ہی نہ تھا۔ شرائط ناقابل قبول تھیں۔ بہرکیف، ایک عالمی رہنما نے سابق وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کو اسلحہ کی کمی جتاتے ہوئے کہا تھا کہ آپ کے پاس اسلحہ ہی نہیں ہے، جنگ خالی ہاتھوں سے نہیں لڑی جاتی۔
بھٹو نے کہا تھا کہ ’’ہم اور ہماری فوج خون کے آخری قطرے تک وطن کے دفاع میں لڑے گی، گولہ بارود ختم ہوگیا تو ہم لاٹھیوں، ڈنڈوں اور پتھروں سے جنگ جاری رکھیں گے۔ یہ بھی نہ رہے تو دست بازو سے کام لیں گے۔ مگر دفاع کی جنگ کبھی نہیں تھمے گی‘‘۔
یہ مضمون لکھتے وقت سابق امریکی صدر جانسن کے نام پر قائم ’’جانسن لائبریری‘‘، لائبریری آف کانگریس اور دوسری لائبریریوں کی دستاویزات، خفیہ دستاویزات، جریدہ فارن پالیسی سمیت سینکڑوں خطوط اور بیانات سے استفادہ کیا گیا ہے۔ یہ کہانی انہی کی ہے، بس الفاظ میرے ہیں۔ آئیے پڑھتے ہیں۔
1963ء میں چو این لائی نے پاکستان کا دورہ کیا کر لیا کہ پوری عالمی سیاست تلپٹ ہوگئی۔ پاکستان کے حلیف مخالفین کی صف میں کھڑے ہو گئے اور بھارت کے مخالفین عصر حاضر کی طرح بھارت کی پشت پر دکھائی دینے لگے۔
چو این لائی کا دورہ پاکستان کے ختم ہوتے ہی امریکا نے بھارت کے ساتھ پانچ سالہ دفاعی معاہدے اور سپرسونک لڑاکا طیارہ بنانے میں مدد دینے پر حامی بھر لی۔
امریکا نے اسی وقت برطانیہ کو بھارت کی مدد کرنے کی ’’ہدایت ‘‘ دے دی۔ امریکی ایما پر برطانیہ نے بھی بھارت کی دفاعی انڈسٹری کو استحکام دینے کے لئے دست تعاون بڑھا دیا۔
سابق صدر جانسن کے حکم پر رولز رائس کار کمپنی نے بھارت کے لڑاکا طیاروں کے لیے بیرون ملک کہیں اپنا پلانٹ لگانے پر بھی غور شروع کر دیا۔
ان کاروں کے انجن بھارت کے HF24نامی سپر سونک لڑاکا طیاروں میں استعمال کئے جا سکتے تھے۔ فروری 1964ء میں ہی امریکا کو بھارت کی ایٹمی صلاحیتوں کا علم تھا۔
بھارت یورپ کے ایٹمی تعاون سے 4 سے 6 مہینے میں ایٹم بم بنانے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ امریکا نے بھارت کو بھاری پانی مہیا کیا تھا مگر بقول امریکا یہ بھاری پانی بہت محفوظ ہے اور امریکا اس کے استعمال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ تارا پور کا ایٹمی مرکز امریکا کی مدد سے ہی لگایا گیا تھا۔
25 فروری کو امریکا نے کہا کہ جنرل ایڈمز پاک بھارت کشیدگی کا جائزہ لینے کے لئے خطے کا دورہ کریں گے جبکہ پاک چین تعلقات کا جائزہ لینے کے لیے امریکا ہانگ کانگ سے بھی رپورٹ طلب کرے گا۔
یہ بھی انکشاف ہوا کہ امریکا نے بھارت کی فوجی امداد میں فوری اضافے کا اعلان کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہم 70 کروڑ ڈالر کی فوجی اور اقتصادی امداد دینے کو تیار ہیں مگر ایوب کو نہرو کے مقابلے میں زیادہ مضبوط نہیں کریں گے کیونکہ بھارت کو حکمرانی کے بحران کا سامنا ہے۔
اگر بھارت ٹوٹتا ہے تو اس میں ہمارا بھی نقصان ہوگا۔ بھارت اگر کیمونسٹ ملک بن جاتا ہے تو یہ چین جیسی دوسری برائی ہوگی۔ اگر بھارت سوویت بلاک میں رہتا ہے تو بھی یہ ہمیں قبول نہیں ہے‘‘۔
بھارت کے ساتھ فوجی منصوبوں میں اشتراک کے ساتھ ہی امریکا نے پاکستان کی تمام فوجی اور سول امداد بند کر دی۔ امریکا نے عالمی بینک، جرمنی اور برطانیہ سمیت کنسورشیم کو پاکستان کی امداد بند کرنے کو کہہ دیا جس پر کنسورشیم نے اپنا اجلاس ملتوی کر دیا۔
امریکا نے پاکستان کو ملنے والی تمام عالمی امداد کو امریکی کانگریس کی منظوری سے مشروط کروا دیا۔ امریکی کانگریس کا اجلاس اگست 1965ء میں ہونا تھا۔ اسی پاکستان کو امداد دینے والے کنسورشیم نے اجلاس کی تاریخ 27 ستمبر 1965ء رکھ دی۔
بھارت کے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر بھابھا اور سابق وزیراعظم لال بہادر شاستری نے ڈنکے کی چوٹ پر امریکی رہنماؤں کے روبرو دو سال میں دو چار نہیں بلکہ سینکڑوں ایٹم بم بنانے کی دھمکی دے ڈالی۔
مگر امریکی رہنما چپ چاپ سنتے رہتے کیونکہ پینٹاگان، دفتر خارجہ، سی آئی اے اور نیشنل سکیورٹی افیئرز سمیت سبھی کا مقصد پاکستان کو نیچا دکھانے کے سوا کچھ نہ تھا۔
اسے پاک چین دوستی کی قیمت تو ادا کرنا تھی۔ ہمارے ہاں جدید ترین اسلحہ بنایا جا رہا ہے جس نے بھارت کے ہرانے میں ہماری مدد کی۔
پاک بھارت سرحد کی صورتحال 1965ء میں کم وبیش ایسی ہی تھی جیسی ہم آج دیکھ رہے ہیں۔ بھارت آئے روز کسی نہ کسی محاذ پر گولہ باری کرکے سول آبادی کو نشانہ بناتا رہتا تھا۔
ہر بار اسے کرارا جواب ملتا مگر اس کے باوجود اس کی جنگی حس ٹھنڈی نہ پڑتی اور چند ہی روز بعد وہ پھر گولہ باری کا آغاز کر دیتا۔ ایک روز اس نے طیارے پاکستان کی حدود میں داخل کر دیئے۔ یہ دن بھارت کے سکون کا آخری دن تھا اس روز پاک فضائیہ نے بھارت کے جنگی طیاروں کو فضا میں جا لیا اور انہیں مار بھگایا۔
جس طرح پاکستان نے ابھینندن کو حراست میں لے کر بھارت کا سکون غارت کر دیا، اسی طرح 1965ء میں بھی ہلواڑہ، آدم پور اور پٹھان کوٹ جیسے ہوائی اڈوں کو نیست ونابود کرکے علاقائی برتری کا خواب چکنا چور کر دیا تھا۔
بھارت نے 1964ء سے ہی پاکستان کی سرحدی چوکیوں کے نزدیک نقل وحمل شروع کر دی تھی، ماحول کشیدہ تھا۔ امریکا، روس اور چین باریک بینی سے صورتحال کا جائزہ لے رہے تھے۔
چین کے بیانات پاکستان کے حق میں تھے مگر امریکا، روس اور چین دونوں پر نظر رکھے ہوئے تھا۔ امریکا کے ریڈار پر روس سے زیادہ چین مشکوک تھا جبکہ چین کی نظریں واشنگٹن اور ماسکو پر تھیں۔
سابق سوویت یونین بھارت کے ساتھ دفاعی معاہدہ کرنے کے بعد جنوب مشرقی ایشیا میں ایک نیا کھیل کھیلنے کے لیے تیار تھا۔ امریکا، روس اور بھارت کی اس تکون کا مقصد مقبوضہ کشمیر کو ہمیشہ کے لیے پس پشت ڈالنا، بھارت کو علاقائی تھانیدار بنانے کے سوا کچھ نہ تھا۔
آٹھ جنوری 1964ء کو پاکستان کے سفیر غلام احمد نے امریکی حکام کو امریکی دفتر خارجہ کے حکام سے ملاقات کی اور انہیں پاکستانی کشمیر اور بانڈری لائن کے قریب بھارتی فوجیوں کی نقل وحمل سے آگاہ کیا۔
شنید تھی کہ یہ فائرنگ امریکی ہتھیاروں کی مدد سے کی گئی۔ پاکستانی سفیر نے امریکا کو یاد دلایا کہ اکتوبر 1963ء کے معاہدے کے مطابق ’’امریکا کسی بھی جنگ کی صورت میں پاکستان کی مدد کرنے کا پابند ہے‘‘۔
اس سلسلے میں سیٹو اور سینٹو کا بھی حوالہ دیا گیا۔ اسی موضوع پر امریکی انڈر سیکرٹری بال Ball اور بھٹو کے مابین مذاکرات ہوئے۔ امریکی رہنما ٹالبوٹ نے پاکستان کو یقین دلایا کہ امریکا 24 جنوری 1957ء کو ہونے والے معاہدے پر عملدرآمد کا پابند ہے اور دوسرے ممالک کی خارجہ پالیسی میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔مگر عملی طور پر مذکرات ناکام ہوئے۔
ادھر لوک سبھا میں بھارتی زعما کے لب ولہجہ میں تلخیاں علاقے میں کسی کشیدگی کی علامت تھی۔ لوک سبھا میں ہونے والی بحث کشمیری اور پاکستانی عوام کے لیے خطرے کی گھنٹی تھی۔
بعض رہنماؤں نے دو ٹوک انداز میں پاکستان کو ہڑپ کرنے کی دھمکی دی تھی جس پر پاکستانی سفیر نے امریکی حکومت سے اعتراض کیا تو امریکی جنرل ٹیلر نے ایوب خان سے رابطہ کیا۔
جنرل ٹیلر نے ایوب خان کو یقین دلایا کہ ’’ہم اپنے موقف پر قائم ہیں‘‘۔ ٹیلی فونک بات چیت کے بعد جنوری کے دوسرے ہفتے میں جنرل ٹیلر پاکستان کے دورے پر آئے جہاں انہوں نے پاکستان سے تعاون کا پانچ سالہ پروگرام پیش کر دیا۔ اسی قسم کا پلان امریکی انتظامیہ بھارت کو بھی پیش کرچکی تھی۔
جلتی پر تیل کا کام نرائن گنج اور ڈھاکا میں فسادات نے کیا۔ کلکتہ میں 175 مسلمانوں کی شہادت کے بعد 20 ہزار سے زائد مسلمان پہلے مرحلے میں سابقہ مشرقی پاکستان میں داخل ہو گئے۔
یہ بالکل 1971ء جیسی صورتحال تھی۔ 1971ء میں بھارت نے مشرقی پاکستان کے باشندوں کی آمد کا بہانہ بنا کر مغربی پاکستان پر بھی حملہ کیا تھا۔
بہرکیف بھارت نے آسام اور بنگال میں مسلمانوں پر زندگی تنگ کر دی تھی۔ جیسا کہ آج بھی آسام میں صورتحال اتنی ہی خراب ہے، وہاں 34 لاکھ مسلمانوں کو شہریت سے محروم کیا جا رہا ہے۔
سابق صدر ایوب خان نے آسام اور مغربی بنگال میں مسلمانوں کی شہادت اور انخلا روکنے کا مطالبہ کیا تھا۔ سابقہ مشرقی پاکستان میں ایک کروڑ کے قریب ہندو بھی آباد تھے جن کا مقصد ڈھاکا، راجشاہی، سلہٹ اور نرائن گنج سمیت متعدد مقامات پر حالات کو کشیدہ کرنا تھا۔
1964ء میں بھارت نے چکنوٹ سیکٹر اور پونچھ سیکٹر میں گولہ باری کی۔ بگڑتی ہوئی صورتحال پر پاکستان نے 19 جنوری 1964ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کر لیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح اس وقت بھی امریکا اور برطانیہ نے ثالثی کی پیش کی۔ مگر آج کی طرح بھارت نے مسترد کر دی۔
ثالثی کی پیشکش کے باوجود پاکستان کی جانب امریکی رویہ سرد پڑتا جا رہا تھا۔ 1962ء کے موسم سرما اور موسم بہار میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ہونے والی بحثوں میں امریکا نے پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔
مگر 1964ء میں امریکی گرم جوشی قدرے ختم ہو چکی تھی۔ انہی دنوں دفتر خارجہ کے ایگزیکٹو سیکرٹری میکیزون کا ایک خط منظر عام پر آیا۔ انہوں نے لکھا تھا کہ ’’امریکا کی مسلسل حمایت سے ایوب خان مضبوط ہوتے جا رہے ہیں، وہ بھارت سے نمٹنے کے لئے توانائی اور طاقتور محسوس کرتے ہیں، وہ بھارت کے معاملہ میں خود کو طاقتور سمجھنے لگے ہیں، لہٰذا کچھ سرد مہری دکھانا چاہیے‘‘۔
امریکی دفتر خارجہ اس کے سفیر اور کئی افسران بھی امریکی انتظامیہ کو جنوب مشرقی ایشیا میں اسے چین سے ڈرا رہے تھے۔ ان افسروں کا مقصد یہ بارو کرانا تھا کہ پاکستان کی مدد سے چین خطے کا چودھری بن جائے گا۔ چین کے اثرونفوذ کو روکنے کے لیے بھارت کی مدد کرنا امریکا پر فرض ہے۔
بقول امریکی ماہرین پاکستان چینی بلاک میں شامل ہو رہا تھا۔ امریکی نقطہ نظر کو بھانپتے ہوئے پاکستان نے واضح کیا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔
بھٹو نے 29 نومبر 1964ء کو بھی یقین دلایا کہ صدر ایوب خان نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں آپ ( صدر جانسن) کو یہ پیغام پہنچا دوں کہ آپ خود کو اس پریشانی سے آزاد کریں کہ پاکستان کسی صورت میں خارجہ پالیسی تبدیل نہیں کرے گا۔
شاستری نے زور دیا کہ امریکا اگر اسی طرح پاکستان کی مدد کرتا رہا تو مسئلہ کشمیر کبھی حل نہیں ہوگا۔ بھارتی دباؤ پر امریکا آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنا شروع ہو گیا۔
یکم مئی کو حالات بگڑنے کے بعد امریکا نے مداخلت کی۔ صدر جانسن کا ہنگامی پیغام ملنے کے بعد باؤنڈری ایریا پر دوبارہ مذاکرات کی کرن دکھائی دی۔
پاکستان رن کچھ میں سیز فائر پر آمادہ ہوگیا۔ مگر بھارت کے صاف انکار کے بعد حالات بگڑ گئے۔ امریکا نے اپنے بعض افسران کو سرحدی معائنے کے لیے پاکستان اور بھارت بھیجا۔
امریکی جنرل پہلے بدین پہنچا، جہاں اس نے آٹھویں ڈویژن کی نقل وحمل کا اچھی طرح جائزہ لیا۔ امریکی فوج نے بھارتی علاقے کا بھی دورہ کیا۔ بھارت نے راجھستان سیکٹر پر گولہ باری میں امریکی راکلس 6 ایم ایم رائفلیں استعمال کیں۔ پاکستان نے امریکا سے شکایت کی۔ گولیوں کے خول امریکی افسر کو پیش کیے گئے۔
امریکی افسر نے تسلیم کیا کہ چین کو مارنے کے لئے بھارت کو دیا گیا اسلحہ بھارت نے دوست ملک پاکستان کیخلاف استعمال کیا ہے۔ وہ بھارت کو یہ اسلحہ پاکستان کے خلاف استعمال کرنے سے روکنے میں ناکام رہا۔
واجپائی نے بھارتی پارلیمنٹ میں رن آف کچھ اور راجھستان کے بارے زور دار جذباتی تقریر کی۔ تقریروں سے ایسے ہی شواہد ملے کہ بھارت نے امریکی ہتھیاروں سے لیس کئی بریگیڈ پاکستان کے ساتھ جنگ میں جھونک دیئے ہیں۔
1965ء کی جنگ سے پہلے بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں نوجوان مردوں اور عورتوں کو بھی گرفتار کرنا شروع کر دیا تھا کیونکہ آزاد کشمیر میں بھی جنگ میں شدت آ رہی تھی۔
یہ دہلی کے ایوانوں میں خطرے کی گھنٹی کی طرح گونج رہی تھی جس کی بازگشت امریکا میں بھی سنی گئی۔ مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کو پیچھے ہٹانے کے لیے بھارت نے سلیمانکی سیکٹر پر شدید گولہ باری کی۔ 14 مئی کو کینبرا طیاروں نے کھاریاں کی جانب پرواز کرنے کی کوشش کی۔
پاکستان نے عالمی سطح پر احتجاج کیا۔ پاکستان یہ طیارہ گرا دیتا تو یقیناً جنگ اسی روز پھیل جاتی، پھر اسے کنٹرول کرنا ناممکن ہوتا۔ کھاریاں کی جانب پرواز کے فوری بعد نئے احکامات جاری ہوئے۔ فوج اور فضائیہ ہر بھارتی طیارہ گرانے کا حکم مل گیا۔ اس کے بعد بھارتی فوج نے پاکستانی حدود کی خلاف ورزی کی جرات نہیں کی۔
23 مئی کو بھارتی وزیراعظم لال بہادر شاستری نے امریکی صدر جانسن کو ایک اور خط لکھا جس میں پاکستان کیخلاف درجنوں الزامات عائد کیے گئے۔
شاستری کے خط کے جواب میں امریکا نے بھارت کو 22 کروڑ 70 لاکھ ڈالر اور پاکستان کو صرف 1.85 ڈالر دینے کا اعلان کیا۔ اس امریکی شہ پر بھارت اپنی 4 ڈویژن حملہ آور فوج پاکستانی سرحد سے ڈیڑھ سو گز کے فاصلے پر لے آیا تھا۔ 16 اور 17 مئی کو بھارتی فوج نے اچانک کارگل سیکٹر میں حملہ کر دیا۔
بھارتی فوج 6 جون تک کارگل کے مغرب میں 20 سے 25 میل اندر گھسنے کا ناپاک منصوبہ بنا رہی تھی۔ پاک فوج نے وہ بھارتی حملہ ناکام بنانے کے بعد چھمب میں کئی میل اندر تک داخل ہوگئی۔
بھارت نے ایک مرتبہ پھر امریکی ہتھیاروں کے استعمال کا راگ الاپا۔ نیشنل سکیورٹی کونسل کے رابرٹ گومر نے کہا کہ ’’ہم پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لیے پہلے ہی اقدامات کر چکے ہیں۔ ایف 104 طیاروں کی دو سکواڈرن کی فراہمی دو سال سے روک رکھی ہے۔ مزید اقدامات کر رہے ہیں جس کے باعث پاکستان کا خون رس رہا ہے‘‘۔ انہوں نے جملہ استعمال کیا ’پاکستان از بلیڈنگ‘۔
اس موقع پر غیر جانبدار حلقوں کی جانب سے پٹرولنگ کی پیشکش کی گئی جسے بھارتی وزیراعظم شاستری نے مسترد کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان رن کچھ خالی کرے پھر غور کریں گے۔
شاستری نے عالمی امن کو رن کچھ میں پاکستان کی مکمل واپسی سے مشروط کر دیا حالانکہ باؤنڈری کمیشن نے یہ علاقے پاکستان کو دئیے تھے۔ رن کچھ سے مکمل واپسی کے بعد پاکستان کا یہ پورا سیکٹر غیر محفوظ ہو جاتا۔ ہماری دفاعی گہرائی ختم ہو جاتی۔
یکم ستمبر کو سردار سورن سنگھ نے پاکستان پر حملہ کرنے کی بات کی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان پر حملہ ناگزیر ہے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو جانے والے تمام راستے بند کر دئیے۔
اورسیز فائر لائن پر گولہ باری شروع کر دی گئی۔ 2 ستمبر کو سیکرٹری خارجہ رش تالبوت اور وائس ٹیلر، ایڈمن روبن نے ہنگامی طور پر مذاکرات کیے۔
انہوں نے کہا کہ ’’ جنگ ہوئی تو 10 لاکھ لوگ مارے جائیں گے‘‘۔ بھارت سیز فائر لائن خالی کرنا چاہتا تھا مگر تربیت یافتہ لوگ مقبوضہ کشمیر میں گھس چکے ہیں۔ بھارت سیز فائر کا احترام کرے ورنہ سرینگر کو جانے والی سڑک کاٹ دی جائے گی۔
چنانچہ جموں وکشمیر میں پونچھ سیکٹر، سری نگر میں رن آف کچھ کے معاملات مزید بگڑنا شروع ہو گئے۔ امریکا نے کہا کہ ہم 10 ہزار میل دور سے بھارت اور پاکستان کے ٹینکوں کو کنٹرول نہیں کر سکتے۔ مقبوضہ کشمیر میں پورے 2-3 ہزار مسلح لوگ ہوں گے۔
یکم ستمبر تک جنگ میں کافی تیزی آ چکی تھی۔ پاکستان کی فوجیں ٹٹوال، اڑی اور پونچھ سیکٹر میں بھارتی علاقے میں کئی میل اندر داخل ہو چکی تھیں جس پر بھارت نے یہ راگ الاپنا شروع کر دیا کہ پاکستان نے 25 ہزار سے زائد جوان سول کپڑوں میں کشمیر میں داخل کر دئیے ہیں جو بھارتی فوج کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
مگر یہ الزامات آج کی طرح بے بنیاد ثابت ہوئے۔ یکم ستمبر کو ہی پاکستان نے ’’آپریشن گرینڈ سلام ‘‘ کے نام سے بڑا جوابی حملہ کیا۔ جس کا مقصد اکھنور پر قبضہ کر کے بھارت کی سپلائی لائن کو کاٹ دینا تھا۔
اس کے لئے پوری تیاری کر لی گئی تھی۔ صدر ایوب خان اچھی طرح جانتے تھے کہ بھارت کو اگر کسی بھی علاقے میں ایک دو جگہ بڑی ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا تو اس کی کمر ٹوٹ جائے گی اور اسی روز وہ مذاکرات کی میز پر آ جائے گا۔
اسی لئے یکم ستمبر کی سہ پہر تک چھمب سیکٹر میں بھاری توپ خانے کی گولہ باری کی زد میں آ گیا تھا۔ جنگ بھارتی علاقے میں ہو رہی تھی۔ پاک فوج نے پاکستانی سرحدوں کو ہر لحاظ سے محفوظ بنا لیا تھا۔
بھارت کو وہاں بھی سرپرائز ملا۔ جدید ترین ٹینکوں اور دوسرے ہتھیاروں سے مسلح فوج حیران رہ گئی اور پاکستان نے چھمب سکیٹر میں زبردست کامیابیاں حاصل کر لیں۔
چنانچہ اگلے ہی روز بھارت نے پاکستان پر مکمل حملہ کرنے کے لئے بھارتی فضائیہ کو بھی جنگ کی آگ میں جھونک دیا۔ یہاں بھی اس کے لئے کئی سرپرائز تیار تھے۔
بھارتی طیاروں نے آزاد کشمیر اور پنجاب میں داخل ہونے کی کوشش کی مگر یہاں بھی ہمارے مجاہدین ان کے منتظر تھے۔ پہلے ہی حملے کو ناکام بنا دیا گیا۔
اب آیا چھ ستمبر کا دن
بھارتی حکومت نے بوکھلاہٹ میں دوسری جنگ عظیم میں حصہ لینے والے میجر جنرل نرن جان پرشاد کو پاکستان پر مکمل حملہ کرنے کا حکم دے دیا۔ وہ اپنے 15ویں انفنٹری ڈویژن کے سات رات کی تاریکی میں ہم پر حملہ آور ہوئے مگر انہیں یہاں بھی سرپرائز ملا۔
ملک کا بچہ بچہ اپنی فوج کے ساتھ سیسہ پلائی دیوار کی مانند کھڑا تھا۔ بھارت کو دوسری جنگ عظیم کے سابق جنرل پر اتنا اعتماد تھا کہ وہ ہمارے جم خانہ میں شام کی چائے نوش فرمانے کی سوچ رہے تھے۔
ہم ابھینندن کی طرح ہندوؤں کو قید میں چائے تو پلا سکتے ہیں مگر جم خانہ میں نہیں۔ ویسے بھی ہمارے بیوروکریٹس نے وہاں کبھی ہمیں چائے پینے کی اجازت نہیں دی، وہ ہندوئوں کو وہاں گھسنے کی کیسے اجازت دیتے۔
ان کا خیال تھا کہ آدھے گھنٹے میں بی آر بی پار کر کے لاہور میں موج مستی کریں گے کیونکہ انہوں نے بھی سن رکھا تھا کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا اس نے کچھ نہیں دیکھا۔
لاہور میں چائے پینے کی آرزو رکھنے والے میجر جنرل کے حملہ آور قافلے پر پاک فوج نے جوابی حملہ کر دیا۔ ہمارا حملہ اس قدر شدید تھا کہ بھارتی جنرل جان بچانے کے لئے اپنا ہی جنگی قافلہ چھوڑ کر بھاگ نکلا۔
کئی ہفتوں تک کچھ پتا نہیں چلا کہ وہ کہاں ہیں۔ اسی اثنا میں پاک فوج نے کھیم کرن پر بھی قبضہ کر لیا۔ لاہور میں باٹاپور کا علاقہ بھاتی فوج کا قبرستان بن گیا۔ اسی طرح کی کہانی ہر سیکٹر پہر دہرائی گئی۔
6 ستمبر سے 17 ستمبر تک بھارتی شکست کی داستان
عمومی طور پر یہی کہا جاتا ہے کہ پاکستان اور بھارت میں صرف کشمیر ہی تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کا نامکمل ایجنڈا ہے۔ مگر اس کے علاوہ بھی کئی علاقے ماؤنٹ بیٹن نے عین موقع پر بھارت کے حوالے کر دیئے تھے جو حضرت قائداعظمؒ اور پھر لیاقت علی خان کے زمانے سے ہی اختلافات کا باعث بن رہے تھے۔
ان میں رن آف کچھ کا علاقہ بھی شامل تھا۔ اس کا جو حصہ پاکستان کو ملنا چاہیے تھا، ماؤنٹ بیٹن نے وہ بھی بھارت کو دے دیا تھا۔ 1956ء میں بھارت نے رن آف کچھ میں مزید علاقہ ہتھیانے کی کوشش کی جسے پاکستان نے ناکام بنا دیا۔
1965ء میں پاکستان نے بھارت کی نیت کو بھانپتے ہوئے فوجی نقل وحمل میں اضافہ کرکے بھارت کو پیچھے دھکیل کر اس کے عزائم خاک میں ملا دیئے۔
8 اپریل 1965ء کو ایک مرتبہ پھر بھارت نے گولہ باری شروع کر دی جس کا اسے منہ توڑ جواب دیا گیا۔ بعد ازاں بھارت نے ایک بار پھر عالمی اداروں اور برطانیہ سے رجوع کیا اور ان سے مداخلت کی اپیل کی۔
بھارت کی مدد کی اپیل پر برطانوی وزیراعظم ہیرلڈ ولسن نے لبیک کہتے ہوئے دونوں مماملک پر زور دیا کہ وہ جنگ کو پھیلانے کی بجائے کسی فارمولے پر متفق ہو جائیں۔
ان کے مشورے پر دونوں ممالک نے ایک ٹریبونل کے قیام پر اتفاق کر لیا۔ دونوں ممالک مان گئے کہ علاقائی حدود کے بارے میں یہ ٹریبونل جو بھی فیصلہ کرے گا وہ دونوں ممالک کو تسلیم ہو گا۔ ٹریبونل نے 910 کلومیٹر کا علاقہ پاکستان کو دے دیا۔ پاکستان یہ فیصلہ مان گیا، مگر بھارت شور کرتا رہا۔
5 اگست 1965ء کو بھارت نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی کوشش کی اور بعض علاقوں پر گولے برسائے۔ پہل کرتے ہوئے ہمارے علاقے میں داخل ہونے کی کوشش کی جس پر پاک فوج نے اسے کئی کلومیٹر اندر دھکیل دیا۔
پاک فوج نے ٹٹوال، اڑی اور پونچھ سیکٹر میں بھارت کو ناکوں چنے چبا دیئے۔ اسی دوران بھارت نے کشمیر میں حاجی پیر پاس پر حملہ کرنے کی کوشش کی جس کے جواب میں پاک فوج نے بھی یکم ستمبر کو آپریشن گرینڈ سلام کا آغاز کر دیا۔
یکم ستمبر کو ساڑھے تین بجے چھمب جوڑیاں سیکٹر میں گولہ باری شروع ہو گئی۔ پاکستان نے بھی بھرپور جواب دیا جس میں بھارتی فوج کا بھاری نقصان ہوا۔
بھارتی فوج اپنے ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں چھوڑ کر فرار ہو گئی۔ اسی دن بھارت نے فضائیہ کو طلب کر لیا۔ دو ستمبر کو پاک فضائیہ جو پہلے ہی سے ریڈ الرٹ تھی، حرکت میں آگئی۔
پاک فضائیہ نے مقبوضہ کشمیر اور پنجاب میں بھارتی ہوئی اڈوں اور دوسری فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ بھارتی حکومت نے عین اسی دن انفنٹری ڈویژن اور تھری ٹینک رجمنٹ کو لاہور پر دھاوا بولنے کا حکم دے دیا۔
لاہور نہر اور باٹا پور کے راستے وہ لاہور میں داخل ہونا چاہتے تھے۔ جنرل پرشاد لاہور کے جم خانہ میں پرشاد کھانے کے موڈ میں تھے!۔ یہ حملہ بھی بری طرح ناکام بنا دیا گیا اور جنرل پرشاد خود بھی میدان سے بھاگ نکلے۔
8 ستمبر کو بھارت نے راجھستان کی جانب سندھ میں حملہ تیز کر دیا۔ اس کا خیال تھا کہ مونا باؤ کا بارڈر آسانی سے اس کے کنٹرول میں چلا جائے گا چنانچہ بھارت نے توپ خانہ اور مشین گنوں سے لیس فوجی دستے مونا باؤ بھیج دیئے۔
بھارت نے فرنٹ لائن پر 5 مراٹھا لائٹ انفٹری رکھی تاکہ پاک فوج دھوکے میں آجائے، بھاری توپ خانہ چھاپنے کمی کوشش کی تھی۔ اس کا مقصد سندھ کے اندر تک حملہ کرنا تھا، مگر پاک فوج نے یہ حملہ بھی ناکام بنا دیا۔
پاک فوج نے ناصرف مراٹھا ہلز پر قبضہ کر لیا بلکہ ہمارے طیاروں نے وہاں بھیجی جانے والی کمک کو بھی نشانہ بنایا۔ جودھ پور سے صرف 25 کلومیٹرکے فاصلے پر واقع یہ اہم علاقہ دوبارہ حاصل کرنے کے لئے بھارت نے کئی حملے کئے مگر پاکستان فضائیہ نے بھارتی فوجی کی سپلائی لائن ہی کاٹ دی اور ریلوے لائنیں بھی تباہ کر دیں۔ یوں مونا باؤ کا یہ اہم بھارتی علاقہ پاکستان کے قبضے میں آ گیا۔ سقوط مونا باؤ سے بھارت میں سکوت طاری ہو گیا۔
9 ستمبر کو بھارت نے سیالکوٹ کا محاذ بھی کھول دیا۔ وہ جنگ کو مختلف محاذوں پر پھیلا کر پاک فوج کی جنگی صلاحیت کو متاثر کرنا چاہتا تھا مگر اسے کیا معلوم تھا کہ جہاں جہاں بھی جائے گا اسے منہ کی کھانا پڑے گی۔
بھارت نے فرسٹ آرمرڈ ڈویژن اس محاذ پر جھونک دی۔ اس ڈویژن کو فخر بھارت بھی کہا جاتا ہے۔ ’’فخر بھارت‘‘ کا خیال تھا کہ وہ ایک سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سیالکوٹ میں داخل ہو گی اور دریائے توی کو عبور کر کے شہر پر قبضہ کر لیں گے۔
مگر یہ محاذ کھولنا بھی بھارت کو مہنگا پڑ گیا۔ یہی جگہ بھارتی ٹینکوں کا قبرستان بنی۔ یہاں دنیا کی تاریخ کی ٹینکوں کی ایک خوفناک ترین لڑائی لڑی گئی۔ کئی سو ٹینک تباہ کر دیئے گے۔
پاک فوج کے چھٹے انفنٹری ڈویژن نے ’’ فخر بھارت‘‘ کہلانے والی فوج کو دھول چٹائی۔ لوگ آج بھی چونڈہ کی جنگ اور پاک فوج کی جوانمردی کی مثالیں دیتے ہیں۔
بھارت کو ایک ہی بار کرارا جواب دینے کے لئے پاک فوج نے آپریشن وائنڈ اپ شروع کیا، یعنی بھارتی فوج کا ’’بستر گول آپریشن‘‘ لانچ کر دیا گیا۔ اس آپریشن کے دوران بھارتی فوج کو مزید پیچھے دھکیل دیا گیا۔
بھارت کو مزید پیچھے دھکیلنے کے لئے پاک فوج کے فرسٹ آرمرڈ ڈویژن نے کھیم کرن پر حملہ کر دیا۔ یہاں پاک فوج نے بھارت کے 32 ٹینک نیست ونابود کر دیئے۔
اس جنگ میں پاک فضائیہ نے بھارت پر 2279 حملے کئے جو ایک ریکارڈ ہیں۔ پاک فضائیہ نے بھارت کے 67 سے زائد طیاروں کو تباہ کر دیا۔ اس فضائی جنگ کے ایک ہیرو محمد محمود عالم (ایم ایم عالم) کا نام ستارے کی طرح آسمان پر جگمگانے لگا۔
انہوں نے تن تنہا بھارت کے نو طیارے مار گرائے۔ بری فوج نے بھی پاکستان کی بحری حدود میں بار بار داخل ہونے کی بھارتی کوشش کو ناکام بنا دیا۔ بھارت نے کئی بار چاہا کی اپنی آبدوزوں کی مدد سے کراچی کی جانب بڑھے مگر کراچی تو دور کی بات ہے ہماری بحری فوج نے بھارت کو اس کے اپنے پانیوں کی حدود سے بھی پیچھے ہی دھکیلے رکھا۔ اس جنگ میں پاکستان نے بھارت کے سولہ سو مربع میل علاقے پر قبضہ کیا۔