لاہور: (دنیا میگزین) مودی ڈاکٹرائن جسے ’’خون کی پیاسی ڈائن ‘‘کہنا چاہیے نے 90 لاکھ کشمیریوں کو قید کر رکھا ہے، ہے کوئی جو اس ’’جیل ‘‘ کا تالہ توڑے؟
عالمی ادارے اندھے گونگے بہرے ہو چکے ہیں؟
کیا انصاف فراہم کرنیوالے عالمی ادارے اندھے گونگے بہرے ہو چکے ہیں؟ صاف نظر آ رہا ہے کہ پتھر سے بھی بدتر کون ہیں اور انکی چوائس کیا ہے؟
سات دہائیاں بیت جانے، لاکھوں لاشیں اٹھانے اور سینکڑوں زخم کھانے کے باوجود کشمیریوں کیلئے انصاف کیوں نہیں؟ کیا صرف وعدے اور اظہار مذمت ان کے خون کا نعمل البدل ہیں؟
برصغیر میں امن اور انسانوں کی ترقی کی بجائے مودی ڈاکٹرائن پر جنگی جنون سوار ہے، کیا سب واضح نہیں؟
کون ٹھکانے لگانے جا رہا ہے بھارت کی گنگا جمنا تہذیب کو؟ کون گاندھی اور نہرو کے نظریات کے خاتمے اور سیکولرازم کو دفن کرنے جا رہا ہے؟
کون بھارت کا ڈیوائیڈر انچیف بن چکا ہے؟
کون ہے ’’بارڈ آف بلڈ‘‘ کا چاہنے اور پھیلانے والا اور کون ہے ’’لارڈ آف بلڈ‘‘ ؟ سب واضح ہو چکا ہے۔
دیکھ سکو تو دیکھ لو، خون کو بہنے سے روک سکو تو روک لو، دنیا والو! انسانی حقوق کے علمبردارو! مسئلہ کشمیر صرف پاکستان کا ہی نہیں دنیا کا بھی ہے۔
کیا ہوگا سلامتی کونسل کی قراردادوں کا؟ کون تسلیم کریگا عالمی اداروں کے فیصلے؟
پورا کشمیر انسانی جیل میں تبدیل ہو چکا ہے۔ 5 اگست سے کرفیو، لاک ڈاؤن، گرفتاریوں، نظر بندیوں، غذا اور دواؤں کی قلت کے بعد قابض بھارتی فورسز اب گھروں میں گھس رہی ہے۔ چادر اور چار دیواری کے تقدس کی پامالی اور نوجوانوں کو گرفتار کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔
سوال ہے اقوام عالم سے اب اور کتنا ظلم؟ اور کتنا جبر؟ اور کتنا صبر؟
اقوام متحدہ مقبوضہ کشمیر پر اپنی قراردادوں کو بچا نہیں سکتی تو کم از کم کشمیریوں کی زندگیاں تو بچا سکتی ہے۔ صرف بیانات اور اظہار مذمت سے کچھ نہیں ہوگا۔
بھارت جبر کا عملی مظاہرہ کر رہا ہے۔ مظلوم کشمیری صبر کا عملی مظاہرہ کر رہے ہیں تو اقوام عالم اور انکے نمائندہ اداروں کو بھی عملی طور پر کچھ کر دکھانا ہوگا۔
کیوں کہا جا رہا ہے مودی کو ’’لارڈ آف بلڈ ‘‘؟ اس کی تازہ مثال مقبوضہ کشمیر میں تعینات بھارتی سیکیورٹی فورس کے کمانڈر کی خود کشی ہے۔
بھارتی خبر رساں ادارے کے مطابق سینٹرل ریزرو پیرا ملٹری فورس کے ایک اسسٹنٹ کمانڈر نے اپنے ہی پستول سے خود کو گولی مار لی۔ 33 سالہ ایم اروِندجن کا تعلق سی آر پی ایف کی 40ویں بٹالین سے تھا اور تامل ناڈو کا رہنے والا تھا۔ 2014ء میں براہ راست بھرتی ہوا اور اسی ماہ دوبارہ جوائن کیا تھا۔
بھارتی حکام سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر چلنے والی خبروں کی تردید کر رہے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ سی آر پی کمانڈر نے نامناسب حالات اور ناکافی سہولیات سے تنگ آکر خود کشی کی۔
یہاں ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ صرف مقبوضہ کشمیر میں 12 برس کے دوران بھارتی فورسز کے 440 اہلکار خود کشی کرچکے ہیں۔ پورے بھارت میں یہ اعدادوشمار کہیں زیادہ ہیں۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ کے مطابق 1989ء سے 2018ء تک 94،644 کشمیری قتل کئے گئے۔ ہزاروں خواتین کی آبروریزی کی گئی اور ہزاروں جوانوں کو بینائی سے محروم کیا گیا۔
انسانی تاریخ میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے ہاتھوں انسانی حقوق کی پامالی سے بڑھ کر بربریت کی کوئی مثال نہیں۔ کیا یہ اعدادوشمار نہیں بتا رہے کہ کون ہے ’’لارڈ آف بلڈ ‘‘؟ کس نے پاک بھارت سرحد کو بنا رکھا ہے ’’بارڈر آف بلڈ ‘‘؟
یقین نہ کرنیوالوں کیلئے حقائق اور تازہ ترین اعدادوشمار حاضر ہیں کہ مودی ڈاکٹرائن 2 سال میں 1970ء بار ایل او سی کی خلاف ورزی کر چکی ہے۔ شہری آبادی کو نشانہ بنانا عالمی انسانی حقوق کے قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ بھارت کی جنگ بندی کی خلاف ورزی امن و سلامتی کیلئے خطرہ ہے۔
بھارتی خلاف ورزیوں سے تزویراتی غلط فہمی پیدا ہو سکتی ہے۔ پاکستان کی جانب سے بھارت پر زور دیا گیا کہ وہ 2003ء کی جنگ بندی مفاہمت کا احترام کرے۔
جنگ بندی پر مکمل عملدر آمد کرے اور ایل او سی اور ورکنگ باؤنڈری پر امن برقرار رکھے لیکن مودی ڈاکٹرائن کچھ سننے کو تیار نہیں، اس نے ایل او سی پر رہنے والوں کی زندگیاں اجیرن کر رکھی ہیں۔ بچے، بوڑھے اور جوان بنکروں کو گھر تصور کرنے لگے ہیں۔
سرحدوں کے قریب بسنے والوں کا زندگی بارے نظریہ تبدیل ہو چکا ہے۔ ہر وقت جنگ اور خطرے سے زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ ہماری زندگی جہنم بن چکی ہے۔ بھارتی فوج کسی بھی وقت گولہ باری کر دیتی ہے اور یہ صورتحال ایک بڑے انسانی المیے کا منظر پیش کر رہی ہے۔
دوسری جانب برصغیر کے حالات پر گہری نظر رکھنے والے مبصرین ان خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ انسانوں کے خون کی پیاسی مودی ڈاکٹرائن نے پاکستان کیخلاف جنگ کیلئے سازش تیار کر لی ہے۔
مقبوضہ یا آزاد کشمیر میں جلد دہشتگردی کی بڑی وارادت کرکے اس کا آغاز کریگا۔ خطے کو ایٹمی جنگ سے بچانے کیلئے ضروری ہے کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے، وگرنہ جنگ سے دنیا کے دیگر ملک بھی محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔
امریکا کو آگے بڑھ کر سلامتی کونسل کے ساتھ مل کر کشمیری عوام پر جاری بھارتی ظلم روکنے کیلئے قدم اٹھانا ہوگا۔ اس وقت جو صورتحال ہے وہ انسانیت کو شرمانے کیلئے کافی ہے۔
آزاد کشمیر اور پاکستانی سرحدوں پر منڈلاتے انہی خدشات اور خطرات کے پیش نظر پاکستان کی سینیٹ داخلہ کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر رحمٰن ملک نے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کو کشمیر میں جاری بھارتی جارحیت پر خط لکھا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ ہائی کمیشن مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین پامالی کا نوٹس لے اور بھارتی مظالم پر تحقیقات کروانے کیلئے مختلف ممالک سے پارلیمنٹرینز پر مشتمل کمیشن تشکیل دے۔
چیئرمین داخلہ کمیٹی نے لکھا کہ اقوام متحدہ امن مشن مقبوضہ کشمیر بھیج دے۔ بھارتی فوج کشمیریوں کے قتل، ریپ، اغوا اور اندھا کرنے سمیت سنگین جرائم میں ملوث ہے۔
مسلسل کرفیو کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر میں ادویات اور اشیائے خورونوش کی شدید قلت ہے۔ فوجی محاصرے کی وجہ سے نوزائیدہ بچوں کو دودھ اور خوراک میسر نہیں، مریض اور بچے مر رہے ہیں۔
مودی حکومت نے سلامتی کونسل کی قراردادوں کیخلاف کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی۔ وقت ہے کہ اقوام متحدہ کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشتگردی اور انسانی حقوق کی پامالی کا نوٹس لے۔
کئی ممالک کے پارلیمنٹرینز نے مقبوضہ کشمیر جانے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ اقوام متحدہ کا ہائی کمیشن برائے انسانی حقوق اپنی نگرانی میں بین الاقوامی پارلیمنٹرینز پر مشتمل کمیشن تشکیل دے۔
بین الاقوامی پارلیمنٹرینز کمیشن کو مقبوضہ کشمیر جانے کی رسائی دی جائے۔ کمیشن کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کا جائزہ لے کر رپورٹ مرتب کرے۔ اقوام متحدہ فوری طور پر مقبوضہ کشمیر میں اپنا امن مشن اور امن افواج بھیج دے۔
سورہ ’’ غزہ‘‘ بن گیا، نسل کشی کا خطرہ
بھارت مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت پر حملے کو جتنا آسان سمجھ رہا تھا دراصل ایسا ہوا نہیں۔ کرفیو سمیت تمام تر سخت پابندیاں کشمیریوں کو جھکانے میں ناکام ثابت ہو رہی ہیں۔
ایسا الفاظ کی حد تک محدود نہیں ہے۔ کشمیری اپنی آزادی کی جدوجہد میں کس حد تک آگے جا چکے ہیں اس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ سرینگر کے علاقے سورہ میں قابض بھارتی فورسز کے داخلے کو روکنے کیلئے خندقیں کھود دی گئی ہیں۔
بیریئرز اور رکاوٹیں لگادی گئی ہیں اور اب یہ علاقہ بھارت کیلئے ’’کشمیر کا غزہ‘ ‘ بن چکا ہے۔ محاصرے میں گھرے علاقہ مکینوں نے ٹین کی ٹوٹی پھوٹی شیٹوں، لکڑی کے بڑے بڑے ٹکڑوں، آئل کے ڈبوں اور کنکریٹ پلرز سے فصیلیں بنا دی ہیں اور علاقے میں داخلے کے واحد راستے پر باقاعدہ پہرہ دیا جا رہا ہے۔
رات کے وقت پہرہ دینے والے مقامی شہری مفید نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ قابض فورسز صرف ہماری لاشوں پر سورہ میں آ سکتی ہیں۔ ہم اپنی سرزمین کا ایک انچ بھی بھارت کو نہیں دیں گے جس طرح غزہ میں اسرائیل کیخلاف مزاحمت ہے اس طرح ہم بھی اپنے مادر وطن کیلئے پوری طاقت سے لڑیں گے۔
فرانسیسی خبر ایجنسی کے مطابق بھارت کے متنازع فیصلے اور لاکھوں مزید فوجی مقبوضہ کشمیر میں بھیجنے کے بعد مظاہرے ہوئے تاہم لوئر مڈل کلاس افراد سے تعلق رکھنے والا علاقہ سورہ سب سے آگے ہے۔ 2 ہزار گھروں پر مشتمل علاقے کو قابض فورسز نے 3 اطراف سے گھیرا ہوا ہے اور مقامی معروف مسجد جیناب صاحب ہزاروں مظاہرین کیلئے اسمبلی پوائنٹ بن چکی ہے۔
ہر رات علاقہ مکین مشعلیں تھامے مارچ کرتے ہیں اور کشمیر کی آزادی اور’’ گو انڈیا گو بیک‘‘کے نعرے لگاتے ہیں۔ قابض فورسز نے ہیلی کاپٹرز اور ڈرونز کی مدد سے علاقے میں 3 بار گھسنے کی کوشش کی تاہم پتھروں، نیزوں اور کلہاڑیوں سے لیس نوجوانوں نے فورسز کو پیچھے دھکیل دیا۔
سورہ کے کشمیریوں نے سر پر کفن باندھ لئے ہیں۔ اگر عالمی برادری نے نوٹس نہ لیا تو یہاں بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کے نقصان کا خطرہ ہے۔
دوسری جانب عالمی تنظیم جینو سائیڈ واچ نے نسل کشی کا الرٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر قتل عام کا خطرہ ہے۔ عالمی برادری مسلمانوں کی نسل کشی روکے۔ بھارت انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کررہا ہے۔
تشدد اور جنسی زیادتی کے واقعات عام ہیں۔ وادی میں مسلمانوں کو دہشتگرد اور علیٰحدگی پسند بنا دیا گیا ہے۔ جینو سائیڈ واچ نے کشمیریوں کی نسل کشی پر 10 مراحل کی نشاندہی کی ہے اور کہا ہے کہ بھارتی فوج نے 2016ء سے اب تک 70 ہزار کشمیری شہید کیے۔
کشمیر میں جرم کے بغیر 2 سال تک قید کے واقعات عام ہیں۔ مسلمان حریت رہنماؤں کو گرفتار یا نظر بند کر دیا گیا ہے۔ کشمیریوں کے مدمقابل ہندو اور سکھوں پر مشتمل بھارتی فوج ہے۔
مقبوضہ وادی میں 1990ء تک ہندو پنڈت معاشی طور پر حاوی تھے۔ بی جے پی نے ہندوؤں کو مقبوضہ کشمیر میں دوبارہ مضبوط کیا۔ مقبوضہ کشمیر پر جدید اسلحہ سے لیس 6 لاکھ فوجی اور پولیس قابض ہے۔
مودی اور بی جے پی نے مسلم مخالف نفرت کو ہوا دی۔ مودی اور بی جے پی نے سوشل میڈیا پر جھوٹا پروپیگنڈا کیا۔ بی جے پی رہنماؤں نے فوجی قبضے کو مسئلہ کشمیر کا حتمی حل قرار دیا۔
جینو سائیڈ واچ نے خبردار کیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں حالات بدستور خراب رہے تو وادی میں بڑے پیمانے پر قتل عام شروع ہو سکتا ہے۔ مسلمان رہنماؤں کو جلا وطن کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جبکہ مواصلاتی نظام بھی معطل ہے۔ وادی میں کئی لاکھ بھارتی فوجی تعینات ہیں اور مسلمان اکثریت پر اقلیت ہندو فوج کی حکمرانی ہے۔
جینو سائیڈ واچ کے الرٹ کے بعد پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک انٹرویو میں کہا مقبوضہ کشمیر پر دنیا کو اپنی خاموشی توڑنی ہوگی۔ کشمیر میں مسئلہ زندگیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا ہے۔
خواتین کو اغوا کرکے عصمت دری کی جا رہی ہے۔ نسل کشی شروع کی جا رہی ہے۔ دنیا تسلیم کر رہی ہے کہ اب مقبوضہ کشمیر میں بات مشاہدے سے آگے جا چکی ہے۔
پہلے بھی اقوام متحدہ سے خط میں انکوائری کا مطالبہ کیا ہے۔ ہمارے پاس جو ممکنہ راستے ہیں وہ اختیار کر رہے ہیں۔ ترجمان دفتر خارجہ کے ہمراہ ہفتہ وار پریس بریفنگ کرتے ہوئے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں قتل عام کی جانب بڑھ رہا ہے۔
دنیا کو اسے روکنا ہوگا بھارت عوامی مزاحمت کی کال کو ناکام بنانے کیلئے قتل عام کے منصوبے بنا رہا ہے۔ جینو سائیڈ واچ نے الرٹ بہت سوچ سمجھ کر جاری کیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں صورتحال بہت بگڑ چکی ہے۔ مقبوضہ وادی کے لوگ مجبوراً حالات اپنے کنٹرول میں لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
کیا ان حقائق سے واضح نہیں ہو چکا کہ مقبوضہ کشمیر میں ظالم کون ہے اور مظلوم کون؟ کاش دنیا سمجھ سکے اور دیکھ سکے پتھر سے بدتر کون ہیں ؟ اور مودی ڈاکٹرائن کی چوائس کیا ہے؟
مسلمانوں کو دہشتگرد کیوں دکھایا؟شاہ رخ خان کو منہ توڑ جواب
سوشل میڈیا پر کھل کر مودی ڈاکٹرائن اور انتہا پسندوں کی کارروائیوں کی مذمت کی جا رہی ہے ان میں بالی وڈ فنکار بھی شامل ہیں ۔پہلے پریانکا چوپڑا کو عوامی کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑا اب شاہ رخ خان کو عوامی غیض و غضب کاسامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
آئیے آپ کو بتاتے ہیں کہ آخر شاہ رخ خان نے ایسا کیا کیا کہ انہیں منہ توڑ جواب مل رہے ہیں ۔ دراصل شاہ رخ خان نے آن لائن فلم سٹریمنگ کمپنی’’ نیٹ فلیکس‘‘ کیلئے ایک ویب سیریز پروڈیوس کی ہے یہ ویب سریز 7 قسطوں پر مشتمل ہے۔
شاہ رخ خان نے ٹوئٹر پر اپنی پہلی ویب سیریز ’’بارڈ آف بلڈ‘‘ کا ٹریلر جاری کیا تو سوشل میڈیا پر مداحوں کے غصے کی کوئی انتہا نہ رہی۔ دہشتگردی پر بنائی گئی ویب سیریز ’’ بارڈ آف بلڈ‘‘ بھارتی خفیہ ایجنسی کے ایسے ایجنٹ پر ہے جس کو بلوچستان میں خفیہ مِشن کیلئے بھیجا جاتا ہے لیکن وہ ایجنٹ اپنے مِشن میں ناکام ہوجاتا ہے جس کے بعد بھارتی خفیہ ایجنسی اُس ایجنٹ کو نوکری سے فارغ کردیتی ہے۔
نوکری سے نکالے جانے کے بعد وہ ایجنٹ ایک کالج میں پروفیسر کی نوکری کرنے لگ جاتا ہے لیکن کچھ ہی عرصے بعدبھارتی خفیہ ایجنسی ایجنٹ کو دوبارہ اُسی مِشن پر بھیجتی ہے۔’’بارڈ آف بلڈ‘‘ کا مرکزی کردار بالی وڈ کے مسلمان اداکار عمران ہاشمی نے ادا کیا ہے۔ صاف واضح ہے کہ ویب سیریز کو پروڈیوس کرنے والا بھی مسلمان اداکار اور مرکزی کردار کرنیوالا بھی مسلمان اداکار ہی ہے ، صاف نظر آ رہاہے کہ یہ ویب سیریز سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بنائی گئی ہے۔
شاہ رخ خان کی اس ویب سیریز پر ٹوئٹر پر کڑی تنقید کرتے ہوئے نتاشا کُنڈی نامی ایک صارف نے کہا ’’شاہ رخ خان پاک بھارت کشیدہ صورتحال میں اس ویب سریز کے ذریعے اپنے رہنمائوں کو خوش کررہے ہیں، آپ کے پاس نفرت کا اظہار کرنے کیلئے اس سے اچھا موقع نہیں ہوسکتا۔‘‘ ایک صحافی صباحت ذکریہ نے ٹوئٹ کیا کہ’’ شاہ رخ خان وہی بھارتی اداکار ہیں جو اب تک مسئلہ کشمیر پر خاموش ہیں اور اپنی دولت بڑھانے کیلئے مسلمانوں کو ہی دہشتگرد دِکھا رہے ہیں ۔ ‘ ‘ پاکستانی اداکارہ منشہ پاشا نے بھی شاہ رخ خان کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا ’’ کیا بھارت کے پاس فلم بنانے کیلئے پاکستان کے علاوہ کوئی موضوع نہیں ہے؟‘ ‘ماہِ دوراں نامی ایک اور ٹوئٹر صارف نے’’ لارڈ آف بلڈ‘‘ ویب سیریز کیخلاف ٹوئٹ کیا ’’پاکستان بنانے کیلئے قائداعظم کا شکریہ ادا کرتی ہوں ، شاہ رخ خان اُن بزدل مسلمان اداکاروں میں سے ہیں جن کو صرف پیسوں اور شہرت سے محبت ہے، اصل میں یہ وہ ہندو ہیں جو بھارتی منفی سوچ سے محبت کرتے ہیں۔‘‘یہاں ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ شاہ رخ خان کی اس ویب سیریز کو 27 ستمبر کو جاری کیا جائے گا۔
پاکستان مخالف ٹی وی سیریز بنانے پر ترجمان پاک فوج جنرل آصف غفور باجوہ نے اپنے ذاتی ٹوئٹر اکائونٹ سے شاہ رخ خان کو مخاطب کیا اور مشورہ دیا کہ وہ بالی وڈ کی خیالاتی دنیا سے باہر نکل آئیں ۔ حقائق جاننا چاہتے ہیں تو پھر پاکستان میں قید بھارتی دہشتگرد جاسوس کلبھوشن یادیو، پاک فضائیہ کے ہاتھوں مار کھانے والے بھارتی پائلٹ ابھینندن کا حشر اور 27 فروری کو بھارتی فوج کی شکست دیکھ لیں۔ ایسی حرکتوں کی بجائے مثبت سوچ اور عمل کا مظاہرہ کریں۔ مقبوضہ کشمیر میں جاری مظالم اور آر ایس ایس کی ہندو شدت پسندی و نازی ازم کیخلاف آواز بلند کرکے امن کے فروغ کی بات کرنی چاہیئے۔
بھارتی معیشت لڑکھڑا گئی،ذمہ دار مودی ڈاکٹرائن
مقبوضہ کشمیر کی بگڑتی صورتحال سے بھارتی معیشت پر بھی برے اثرات پڑے ہیں ، مودی سرکار کے پالیسی تھنک ٹینک نیشنل انسٹی ٹیوشن فار ٹرانسفارمنگ انڈیا کے وائس چیئرمین راجیو کمار نے تسلیم کیا ہے کہ بھارت کو اس وقت جس اقتصادی سست روی کا سامنا ہے اس کی مثال پچھلے 70 سال میں نہیں ملتی۔
پورا مالیاتی شعبہ خراب صورتحال سے دو چار ہے اور کوئی کسی پر اعتماد نہیں کر رہا۔دوسری جانب امریکہ کے آزاد مالیاتی ادارے جیفریز کے ایکویٹی اسٹریٹجیز شعبے کے گلوبل ہیڈ اور معروف تجزیہ کار کرس ووڈ نے بھی موجودہ سیکیورٹی صورتحال کے پیش نظر بھارت کی اقتصادی صورتحال مزید خراب ہونے کی پیشگوئی کر دی۔
مزید برآں مقبوضہ کشمیر میں انسانی المیے اور ظلم کو لیکر پورے بھارت میں مظاہرے زور پکڑ چکے ہیں ،سیکولر اور جمہوریت پسند عوام انتہا پسند بی جے پی حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اور کھل کر کہہ رہے ہیں کہ مودی بطور ’’ڈیوائیڈر انچیف‘‘ بھارت کو تقسیم کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔
مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر کے دروازے بھارتی اپوزیشن کیلئے بھی بند کررکھے ہیں، راہول گاندھی کی قیادت میں اپوزیشن وفد کو سرینگر داخل ہونے سے روک دیا۔
کیا دنیا نہیں دیکھ رہی کہ اپوزیشن رہنمائوں کیساتھ سرینگر ایئر پورٹ پر کیا ہوا ۔۔۔۔۔؟ راہول گاندھی اور دیگر اپوزیشن رہنمائوں کی پولیس اور انتظامیہ سے تلخ کلامی بھی ہوئی، راہول گاندھی نے سری نگر ایئرپورٹ سے واپس بھیجنے جانے کے بعد کہا کہ ہمارے ساتھ آئے ہوئے پریس کے اراکین سے بدتمیزی اور تشدد کیا گیا یہ واضح ہو گیا کہ جموں اور کشمیر میں صورتحال ٹھیک نہیں ہے۔ دہلی ایئرپورٹ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وفد وادی کے لوگوں کے تاثرات جاننے کا خواہش مند تھا لیکن ہمیں ایئر پورٹ سے آگے جانے نہیں دیا گیا۔
کانگریس نے مودی سرکار کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور اپنے ٹوئٹر اکائونٹ پرکہا’’ مودی سرکار کیا چھپانا چاہ رہی ہے؟ اگر مقبوضہ کشمیر میں صورتحال نارمل ہے، جیسا کہ حکومت کہتی ہے تو پھر راہول کی قیادت میں وفد کو سری نگر ایئرپورٹ سے واپس کیوں بھیج دیا گیا؟‘‘ کانگریس کے رہنما غلام نبی آزاد نے واشگاف الفاظ میںکہا ’’سری نگر میں صورتحال خوفناک ہے، پرواز میں موجود مسافروں سے ہم نے تازہ کہانیاں سنیں جس سے پتھر کے بھی آنسو نکل آئیں۔
تمام جماعتیں اور رہنما ذمہ دار ہیں، ہم وہاں قانون توڑنے کیلئے نہیں بلکہ مقبوضہ کشمیر کی تشویشناک صورتحال کا جائزہ لینے گئے، یہ پچھلے کئی روز سے بند ہے، اس علاقے سے کوئی خبر نہیں آرہی سوال یہ ہے کہ اگر وہاں سب کچھ معمول کے مطابق ہے تو قومی رہنمائوں کو وہاں جانے کی اجازت کیوں نہیں ہے؟
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے رہنما سیتارام یچوری نے کہا’’یہ کہنا بے بنیاد ہے کہ وفد کو کشمیر میں امن عامہ کی صورتحال خراب کرنے کیلئے بھیجا گیا تھا ہمیں سری نگر ایئرپورٹ پر حراست میں لیا گیا تھا حالانکہ ہمیں جانے کی اجازت دینا چاہیے تھی کیونکہ ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ ہم الزامات کا جواب دیں گے۔‘‘
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق وفد نے بڈگام کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے نام مشترکہ خط میں لکھا تھاکہ ’’ہم ذمہ دار سیاسی رہنما، منتخب نمائندے ہیں اور ہمارے ارادے مکمل طور پر پرامن اور انسانی بنیاد پر ہیں۔ ہم مقبوضہ جموں اور کشمیر اور لداخ کے عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں اور حالات کی معمول کی جانب واپسی کے عمل کو تیز کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔‘‘نئی دہلی سے راہول گاندھی کے ہمراہ غلام نبی آزاد سمیت 11 اتحادی رہنما مقبوضہ کشمیر پہنچے تھے۔
کانگریس رہنما کے ہمراہ دیگر جماعتوں میں نیشنلسٹ کانگریس پارٹی، ترنمول کانگریس، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (ایم)، درویندا منیترا کازہگم (ڈی ایم کے ) اور راشتریہ جنتا دل کے رہنما شامل تھے۔
اس سے قبل مقبوضہ کشمیر کے گورنر ستیہ پال یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ کشمیر کی صورتحال بہت بہتر ہے راہول گاندھی جب چاہیں دورہ کر سکتے ہیں انہیں ہیلی کاپٹر بھی فراہم کیا جائیگا لیکن وقت نے ثابت کر دکھایا کہ مودی ڈاکٹرائن کے دعوے کچھ اور اور حقائق کچھ اور ہیںمثال کے طور پر غلام نبی آزاد کو پہلے ہی 2 بار سری نگر اور جموں کے ہوائی اڈوں سے واپس نئی دہلی بھیجا جا چکا ہے۔
اس کے علاوہ سیتا رام یچوری کو بھی ایک بار سری نگر کے ہوائی اڈے سے واپس بھیجا گیا تھا ۔خود بھارتی اخبارات رپورٹ کر رہے ہیں کہ ’’جموں و کشمیر میں بی جے پی کو چھوڑ کر باقی تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما گھروں میں نظر بند ہیں انہیں کہیں جانے کی اجازت نہیں کسی کو ملنے نہیں دیا جاتا۔
مقبوضہ کشمیر مکمل طور پر بند ہے سکول ، بینک ،سرکاری دفاتر،تجارتی مراکز بند اور سڑکوں پر سے پبلک ٹرانسپورٹ غائب ہے مودی حکومت کے حالیہ اقدامات اور ریاست کو خصوصی پوزیشن عطا کرنیوالی آئین ہند کی دفعہ 370ہٹانے سے معمول کی زندگی معطل ہے ، ہر طرح کی انٹرنیٹ اور موبائل فون خدمات بدستور منقطع ہیں۔
سخت ترین کرفیو نافذ اور جگہ جگہ خاردار تاریں بچھی ہیں لوگوں کو گھروں سے باہر نہیں نکلنے دیا جا رہا ۔‘‘ کیا بھارتی میڈیا کایہ اعتراف اقوام عالم ، قانون نافذ کرنیوالے اور انسانی حقوق کے اداروں کو نظر نہیں آتا؟