لاہور: (تجزیہ : سلمان غنی) فوجی ترجمان میجر جنرل آصف غفور کی جانب سے کشمیر کاز پر آخری گولی، آخری سپاہی اور آخری حد تک جانے کا اعلان مسلح افواج کا کشمیر کاز، بھارت کے جارحانہ طرز عمل کے خلاف اپنے تحفظ، بقا اور سلامتی کے حوالے سے یکسوئی، سنجیدگی اور عزم صمیم مظہر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارت نئی جنگ کا بیج بو رہا ہے اسے نہیں بھولنا چاہئے جنگیں صرف ہتھیاروں سے نہیں لڑی جاتیں، کشمیر ہمارے جسم کی رگوں میں خون بن کر دوڑتا ہے۔ فوجی ترجمان کی جانب سے کشمیر ایشو، خطہ کی صورتحال، بھارت کے جارحانہ عزائم اور اپنی عسکری تیاریوں کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات کے بڑی مہارت سے جواب دینے اور ان کی بدن بولی سے ظاہر ہو رہا تھا کہ نئی پیدا شدہ صورتحال میں فوج کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس بھی ہے اور کسی بھی غیر معمولی صورتحال میں وہ قوم کے اعتماد پر پورا اترنے کا عزم صمیم اور حوصلہ رکھتی ہے۔
جہاں تک خطہ پر 5 اگست کے اقدام کے اثرات کا تعلق ہے تو پاکستان کے ردعمل اور دنیا میں اس حوالے سے پیدا ہونے والی تشویش یہ ظاہر کر رہی ہے کہ 5 اگست کا اقدام اگر کشمیری ہضم کرنے کو تیار نہیں تو پاکستان بھی ان سے کسی طور پر پیچھے نہیں اور پاکستان کا کردار کشمیر ایشو پر محض تماشائی کا نہیں بلکہ وہ باقاعدہ فریق کی حیثیت رکھتا ہے۔ کشمیر پر بدلتی صورتحال نے پاکستان کیلئے بڑا چیلنج کھڑا کیا ہے اور اس میں ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور قوم یک زبان ہو کر تحریک آزادی سے مکمل ہم آہنگی کا اظہار کرے اور مسلح افواج اپنی پاک سر زمین کے تحفظ اور سلامتی کے حوالے سے الرٹ رہے۔ پاکستان کے پاس بڑا آپشن یہی ہے کہ کشمیریوں کی جدوجہد کی مکمل تائید اور اسے فیصلہ کن مقام پر پہنچانے کیلئے بھرپور کردار کی ادائیگی کو یقینی بنایا جائے۔ فوجی ترجمان نے آخری حد تک جانے کا اعلان کر کے ثابت کر دیا کہ فوج کہاں کھڑی ہے، حکومت کو سفارتی اور سیاسی محاذ پر یہ باور کرانا پڑے گا کہ یہ حقیقی معنوں میں ہمارے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے اور کشمیر کی آزادی ہی ہمارے لئے زندگی اور ہماری معاشی، اقتصادی شہ رگ ہے جس پر کمپرومائز نہیں ہو سکتا۔
وزیراعظم عمران خان نے اپنے مخصوص انداز میں نریندر مودی، ان کی حکومتی پالیسیوں، ضد اور ہٹ دھرمی کو ٹارگٹ کرتے ہوئے اپنا مکمل وزن کشمیریوں اور ان کی جدوجہد کے ساتھ ڈالا ہے مگر ایک احساس سیاسی سطح پر موجود ہے کہ جس انداز میں حکومت اور اپوزیشن کو مل کر اس ایشو پر قومی لائحہ عمل کا اعلان کرنا چاہئے تھا نہیں ہوا۔ حکومت اس محاذ پر سولو پرواز کی خواہاں ہے مگر اسے اس امر کا ادراک نہیں کہ یہ بڑا محاذ ہے جس کیلئے اتفاق رائے سے آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ ملک کے اندر اتحاد و یکجہتی کی فضا میں ہی بھارت کے جارحانہ طرز عمل، گھناؤنی چالوں اور بیرونی سازشوں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ بھارت بظاہر پریشان ضرور ہے مگر وہ نت نئی چالوں میں مصروف ہے۔ بھارت نے مقبوضہ وادی میں ظلم، جبر اور بربریت کی تاریخ رقم کر کے خود کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے اس کے مظالم انتہا کو پار کر گئے ہیں۔ پاکستان کو اپنے کردار اور اقدامات سے بھارتی چالوں کو ناکام بنانا ہے اور اسے ناکام بنانے کیلئے کرنے کا بڑا کام سفارتی اور عالمی محاذ کو گرم رکھنا اور ان کے سامنے بھارت کا مکروہ چہرہ اور شرمناک عزائم کو بے نقاب کرنا ہے۔