لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) مظفر آباد میں وزیراعظم عمران خان کا کشمیریوں سے یکجہتی کے اظہار کیلئے بڑے عوامی اجتماع سے خطاب اور دنیا میں کشمیر کے سفیر کے طور پر سرگرم ہو کر انہیں آر ایس ایس کی انتہا پسندانہ سوچ سے آگاہ کرنے کا اعلان ظاہر کر رہا ہے کہ وہ کشمیر کو قومی سوچ کے تحت اجاگر کرتے ہوئے اب بھارت اور مودی سرکار کے خلاف نظریاتی بنیادوں پر سرگرم ہونے اور وہ دنیا کو آر ایس ایس کی سوچ، انتہا پسندانہ کردار اور مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا دنیا بھارتی ہٹلر کو کشمیریوں پر ظلم سے روکے اور مظلوم کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا حق دیا جائے دنیا میں کشمیر کے حوالے سے اٹھنے والی آوازیں ظاہر کر رہی ہیں کہ یہ عالمی مسئلہ ہے اور نریندر مودی کتنا بھی ظلم کر لیں یہ مسئلہ اب دبنے والا نہیں۔
وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت خصوصاً خارجہ آفس کو یہ کریڈٹ دیا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے متحرک کردار کے باعث آج کشمیر کو عالمی حیثیت مل رہی ہے۔ جہاں تک وزیراعظم کی جانب سے دنیا کو آر ایس ایس کی انتہا پسندانہ سوچ اور اپروچ سے آگاہ کرنے کا سوال ہے تو یہ ایک بڑی سیاسی حقیقت ہے کہ نریندر مودی نہ صرف علاقائی امن کیلئے بلکہ خود بھارت کیلئے بھی بڑا خطرہ بن چکے ہیں اور خطرناک رخ یہ ہے کہ بھارت میں اقتدار و اختیار پر انتہا پسند ہندو سوچ غالب آ چکی ہے اور کسی بھی عالمی رد عمل کی پروا کئے بغیر وہ اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر قائم ہے، اسی سوچ کی بنیاد پر ہندوستان میں اقلیتوں کا جینا اجیرن بنایا جا رہا ہے اور ہندوستان کے اندر ایک رد عمل کی کیفیت پنپ رہی ہے۔ اسی سوچ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ریاست آسام میں لاکھوں مسلمانوں کو شہریت سے محروم کیا گیا ہے۔ مودی حکومت کو ہندو انتہا پسندی پر مبنی شیطانی ایجنڈے کی تکمیل کیلئے کسی بھی زبانی رد عمل کی کوئی پرواہ نہیں۔
عالمی برادری اور اداروں کو قوانین اور قراردادوں کی خلاف ورزی پر بھارت کے خلاف سخت پابندیاں عائد کرنا ہوں گی۔ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے کشمیریوں کے مسئلہ کو انسانیت کا مسئلہ قرار دیتے ہوئے اس عزم کا اظہار کہ میں انہیں مایوس نہیں کروں گا ظاہر کرتا ہے وہ اس مسئلہ پر یکسو اور سنجیدہ ہیں۔ مقبوضہ وادی میں فوج گردی کے باوجود مودی سرکار کا تسلط قائم نہیں ہو پا رہا، بھارت کیلئے یہ امر زیادہ تشویش کا باعث اس لئے بن رہا ہے کہ اس کے بعد اس کے پاس کشمیریوں کی آواز دبانے اور انہیں جھکانے کیلئے اور کوئی آپشن نہیں۔ جہاں تک وزیراعظم کا کشمیری نوجوانوں کیلئے یہ پیغام ہے کہ کب کنٹرول لائن پر جانا ہے یہ میں بتاؤں گا، ظاہر کرتا ہے وزیراعظم کو انتظامی مشینری اور حساس ادارے ایسی رپورٹس دے رہے ہیں کہ آزاد کشمیر کے نوجوان اور عوام کشمیری بھائیوں اور عوام سے ملنے ان کے دکھ درد میں شامل ہونے کیلئے کتنے بے چین ہیں۔ کنٹرول لائن پر جانا صرف ایک فاصلہ طے کرنا نہیں بلکہ غاصب بھارت کے خلاف رد عمل کا عملی اظہار ہوگا اور ایک ایسی نئی صورتحال طاری ہوگی جو دونوں نیوکلیئر پاورز کیلئے پریشان کن بن سکتی ہے۔ عمران خان نے کھلے طور پر ایسا کیوں کیا یہ وہی بہتر جانتے ہوں گے لیکن جب وہ امن کے داعی ہیں تو پھر لائن آف کنٹرول کو عبور کرنے کی بات انہیں نہیں کرنی چاہئے تھی بھارت اس بات کو جواز بنا کر کوئی گھناؤنا کھیل کھیل سکتا ہے۔
بین الاقوامی قوتوں اور اداروں کو ایسے اقدامات کرنا ہوں گے جو محاذ آرائی اور تناؤ کو کم کرنے کے ساتھ کشمیریوں کے مستقبل کے تعین کے حوالے سے حقیقت پسندانہ پیش رفت کریں کیونکہ کشمیریوں کی تاریخ ساز قربانیوں اور جدوجہد کا مقصد ہی بھارت سے نجات اور آزادی کا حصول ہے۔ وزیراعظم اور ان کی حکومت کو یہ ضرور سوچنا چاہئے بھارت اقوام متحدہ کی قراردادوں کو روندتا ہوا کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کر کے اینٹ تو ہمیں مار چکا ہے اور ابھی تک ہمارا جواب اعلانات، بیانات کے ذریعہ ہی آ رہا ہے ایسا کیوں ہے ؟ اور جواباً کسی پتھر کے استعمال کیلئے ہمیں اس کے کسی اور جرم کے ارتکاب یا شب خون کا منتظر رہنا پڑے گا؟۔