لاہور: (دنیا نیوز) سینئر تجزیہ کار ایاز امیر نے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کی طرف سے مارچ کے اعلان کے بعد اپوزیشن کا امتحان شروع ہو گیا ہے۔
دنیا نیوز کے پروگرام تھنک ٹینک میں میزبان سیدہ عائشہ ناز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ واقفان حال نے بتایا ہے کہ شہباز شریف ترلے مار رہے ہیں کہ مجھے کسی دھرنے میں شامل ہونے پر مجبور نہ کریں، وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم جلسے میں شامل ہوجائیں گے لیکن ہمیں دھرنے کا حصہ نہ بنایا جائے۔
روزنامہ دنیا کے ایگزیکٹو ایڈیٹر، تجزیہ کا رسلمان غنی نے کہاہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں رابطہ موجود ہے، وہ دھرنے میں شامل ہوں یا نہ ہوں لیکن جلسہ میں شامل ضرور ہونگے، اکتوبر کے بعد اپوزیشن اپنی نئی حکمت عملی بناسکتی ہے، اس لئے نومبر بہت اہم ہے۔ یہ بات درست ہے کہ ملکی حالات درست نہیں ہیں۔ اپوزیشن نظام کو کمزور نہیں کرتی بلکہ عوامی مسائل کو اجاگر کرتی ہے، اس وقت سیاسی محاذ پر مولانافضل الرحمن کا دھرنا اور جلسہ چھایا ہوا ہے، اگر حکومت ڈلیور کر رہی ہوتی تو لوگ اس پر قطعاً توجہ نہ دیتے۔ تحریک انصاف کی حکومت سے لوگوں کو بڑی امیدیں تھیں لیکن کچھ بھی نہیں ہوا۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں رابطہ موجود ہے، وہ دھرنے میں شامل ہوں یا نہ ہوں لیکن جلسہ میں ضرور شامل ہونگے۔
سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری نے کہا ہے کہ پاکستان کے مسائل حل کرنے کا لائحہ عمل نہ حکومت کے پاس ہے اور نہ اپوزیشن کے پاس ہے ، دونوں اپنے اپنے اندا ز میں بیوقوفیاں کر رہی ہیں، وزیر اعظم کو تبدیل کرنے کا طریقہ کار آئین میں موجود ہے۔
اسلام آباد سے دنیا نیوز کے بیوروچیف خاور گھمن نے کہا ہے کہ موجودہ حالات میں ن لیگ سسٹم کا حصہ ہے، پنجاب میں اگلی حکومت ن لیگ کی ہوگی اس لئے وہ حکومت پر دباؤ قائم رکھنا چاہتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن کسی بھی صورت عمران خان کو قبول نہیں کرنا چاہتے۔ اگر اس وقت عمران خان کی حکومت گرتی ہے تو ان کے ہاتھ مضبوط ہونگے۔