لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) سیاسی محاذ پر جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور 27 اکتوبر کو ان کی جانب سے اعلان کردہ احتجاجی، آزادی مارچ غالب ہے، احتجاجی مارچ کے مقاصد میں وزیراعظم عمران خان کا استعفیٰ، اسمبلیوں کی تحلیل اور نئے انتخابات کا اعلان شامل ہے۔
جے یو آئی کے سوا تمام اہم سیاسی قوتیں مولانا فضل الرحمن کے احتجاجی و آزادی مارچ پر تو الگ الگ رائے رکھتی ہیں لیکن ان کے درمیان ایک بات جس پر سب کا اتفاق ہے کہ کیا احتجاجی مارچ اور دھرنوں سے منتخب حکومت کو ہٹانا ممکن ہے اور یہ رجحان ملک میں جاری جمہوریت اور جمہوری عمل کے لیے کس حد تک صحت مند ہو سکتا ہے ؟ کیا کسی حکومت کو ہٹانے یا اس پر عدم اعتماد کے اور آپشن موجود نہیں ؟ مولانا کا احتجاجی مارچ کس حد تک نتیجہ خیز ہوگا ؟ اس وقت قوم کے صاحب الرائے طبقات میں یہ سوال بہت شد و مد سے زیر بحث ہے کہ کیا منتخب حکومت کو احتجاجی دھرنے سے ہٹایا جا سکتا ہے ؟ یا کب تک قوم دیکھے گی کہ احتجاجی جتھوں کے ہاتھوں منتخب حکومتیں سرنگوں ہوتی رہیں گی ؟ اور یہ طرز عمل وسیع النظر سیاسی منظر نامے کے مستقبل پر کیا اثرات مرتب کریگا ؟۔
یہ نقطہ نظر تو واضح ہے کہ منتخب حکومت کو دھرنے یا اسلام آباد لاک ڈاؤن کر کے یا محصور کر کے گرایا جانا نہ صرف غیر جمہوری رویہ ہے بلکہ غیر اخلاقی بھی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ ملک میں من چاہی تبدیلی کی خواہش کے تحت ہڑبونگ مچا کر اور سیاسی عدم استحکام پھیلا کر اس سے کوئی حقیقی تبدیلی پیدا نہیں ہو سکتی۔ خود وزیراعظم عمران خان اور ان کی جماعت اس خارزار سے گزرچکی ہے اور اس دیوار سے اپنا سر پھوڑ چکی ہے مگر تبدیلی ایسی آئی ہے کہ الحفیظ الامان کی چاروں جانب دہائی ہے۔ قوم کے جمہوری طبقات اس بات پر کامل یقین رکھتے ہیں کہ ملک میں حکومت بننے کا بھی ایک آئینی اور جمہوری طریقہ کار انتخابات ہیں اور حکومت ہٹانے کا طریقہ کار بھی اسی آئین میں طے ہے۔ تو پھر مولانا فضل الرحمن جیسے بلا کی سیاسی فہم رکھنے والے حضرت اس سفر پر کیوں گامزن ہیں ؟ اس وقت مختلف حلقوں میں اس کا جواب ڈھونڈا جا رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس کی بڑی اتحادی جماعتیں مسلم لیگ اور پی پی بھی اس سوال کا جواب اپنے اپنے طور پر ڈھونڈ رہی ہیں، مولانا کا اب تک کا انداز سیاست تو مصالحت اور محاذ آرائی سے گریز تھا مگر نئی حکومت کے آنے کے بعد مولانا مسلسل سیاسی تلخی کو پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس دھرنے سے حکومت گرے گی یا نہیں ؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی بجائے زیر بحث یہ ہے کہ مولانا کو اس صورتحال پر مجبور کرنے کے پیچھے اصل اشارہ کس کا ہے ؟ ظاہر ہے ملک میں منتخب سیاسی حکومتوں کو غیر جمہوری ہتھکنڈوں سے پریشان کرنے، دیوار سے لگانے اور من پسند سیاسی منظر نامے تخلیق کرنے کی ایک تاریخ ہے۔ نواز شریف کا دور حکومت تو اس حوالے سے پاکستانی سیاسی تاریخ میں یاد رہے گا کہ اسے دو مرتبہ سیاسی و مذہبی جتھوں نے زچ کرنے کی کوشش کی۔ اس سے پہلے پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف بھی جمہوریت نہیں ریاست بچاؤ کے پر فریب نعرے لگوا کر انہیں سیاسی طور پر دیوار سے لگانے کی کوشش ہوئی تھی۔