ن لیگ کی مو جودہ قیادت نے مارچ کو دل سے قبول نہیں کیا

Last Updated On 31 October,2019 12:40 pm

لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں رواں دواں احتجاجی مارچ کس حد تک نتیجہ خیز ہوگا اس حوالے سے فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے ایک بڑے سیاسی شو کے ذریعے حکومت کو واضح پیغام ضرور دیا ہے اور حکومت دفاعی محاذ پر بھی آئی ہے لیکن اس آزادی مارچ میں بڑی جماعتوں خصوصاً مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی شمولیت کو کسی طرح مؤثر قرار نہیں دیا جا سکتا، یہ شرکت محض علامتی اور استقبالی ہی رہی، خصوصاً پاکستان کی سیاست کا دل لاہور احتجاجی مارچ کے ساتھ دھڑکتا نظر نہیں آیا، اس کی وجوہات کیا تھیں ؟ کیا موت و حیات کی کشمکش سے دو چار نواز شریف کا بیانیہ خود اپنی جماعت مسلم لیگ (ن) میں پذیرائی نہیں رکھتا ؟ کیا سیاسی جماعتوں کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ کو سیاسی جماعتوں کے اندر پرو اسٹیبلشمنٹ سوچ کا سامنا ہے ؟ اگر احتجاجی مارچ کے ساتھ اسلام آباد تک بڑی سیاسی جماعتوں کا یہی سلوک رہا تو یہ جنگ کس طرح نتیجہ خیز ہو گی۔

احتجاجی مارچ پر زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو مارچ کے محرک مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت جمعیت علمائے اسلام تو اپنے پروگرام اور ایجنڈا پر یکسوئی سے کاربند زبردست شو بنانے میں کامیاب رہی ہے لیکن سندھ کی حد تک جائزہ لیا جائے تو یہ ایک تاثر پایا جا رہا ہے کہ پیپلز پارٹی نے آزادی مارچ کے ساتھ کسی حد تک یکجہتی کا مظاہرہ کیا ہے مگر جونہی قافلے سندھ سے پنجاب میں داخل ہوئے تو توقع یہ تھی کہ پنجاب کی پاپولر جماعت مسلم لیگ (ن) اس مارچ کا زبردست انداز میں استقبال کرتی اور شامل ہوتی لیکن عملاً دیکھنے میں آیا کہ پنجاب کی سب سے بڑی جماعت (ن) لیگ عوام کو بیدار کرنے میں خاطر خواہ کامیاب نہیں ہو سکی۔ جب قافلے رات گئے لاہور میں داخل ہوئے تو یہاں لگائے جانے والے (ن) لیگ کے سات کیمپوں میں بھی کوئی غیر معمولی صورت حال نظر نہیں آئی۔ کسی بھی جگہ حاضری چند سو سے زائد نہ تھی، البتہ لاہور سے روانگی کے وقت شاہدرہ پر عوام کی بڑی تعداد دیکھنے میں ضرور آئی۔ لاہور جس کو ملکی سیاست کا دل قرار دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ جب تک لاہور نہیں اٹھتا سیاسی تبدیلی ممکن نہیں ہوتی تو شریفوں کے لاہور نے احتجاجی مارچ کو غیر معمولی پذیرائی نہ دے کر یہ ثابت کیا ہے کہ ابھی لاہور میں حکومت کی تبدیلی کی تحریک موجود نہیں۔

اس کی وجوہات پر نظر ڈالی جائے تو اس کی بڑی وجہ خود مسلم لیگ (ن) کی موجودہ قیادت ہے ، جس نے احتجاجی مارچ کو دل سے قبول نہیں کیا۔ پہلے پہل تو وہ اس احتجاج کے حوالے سے کھلے تحفظات کا اظہار کرتے نظر آئے پھر نواز شریف کی واضح ہدایات پر اس میں شمولیت کا اعلان تو کیا گیا مگر بے دلی سے اور تیسرا اس صورت حال میں مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کی صحت اس مقام پر چلی گئی جہاں (ن) لیگ کے تنظیمی عہدے دار اور مقامی قیادت کو اس کے پیچھے چھپنے کے لیے ایک جواز مل گیا۔ آزادی مارچ رات کے اندھیرے میں لاہور آ بھی گیا اور اس کے کوئی سیاسی اثرات دیکھنے کو نہیں ملے۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی موجودہ قیادت آزادی مارچ کے ذریعے احتجاج کو اتنا توانا دیکھنے کی خواہمشند نہیں تھی کہ جس کے نتیجہ میں جمہوریت یا جمہوری عمل کے حوالے سے خطرات پیدا ہوں اور اسی تاثر کو جواز بناتے ہوئے کوئی بڑا کردار ادا نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور اب جب کہ آزادی مارچ اسلام آباد پہنچ رہا ہے اور بڑے جلسے کی تیاریاں ہیں تو اس حوالے سے بھی خبریں یہ آ رہی ہیں کہ اس میں شاید شہباز شریف شریک نہ ہو پائیں کیوں کہ ان کی اسلام آباد آمد اور جلسے میں شرکت ان کے ڈاکٹر کے مشورے سے مشروط ہے، جب کہ پارٹی کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال ، خواجہ محمد آصف، ایاز صادق، خرم دستگیر، رانا تنویر حسین اور دیگر شریک ہوں گے۔

اسی طرح سے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے حوالے سے بھی اطلاعات یہی ہیں کہ شاید وہ خود شریک نہ ہوں اور دیگر قائدین جلسے میں آئیں گے ، جس بناء پر کہا جا سکتا ہے کہ اس آزادی مارچ کے فیصلہ کن مرحلہ پر بھی دونوں بڑی جماعتوں کی لیڈر شپ کی عدم موجودگی بہت سے سوالات کو جنم دے گی۔ اطلاعات یہی ہیں کہ دونوں بڑی جماعتیں نہیں چاہتیں کہ اس مرحلے پر حکومت سے نجات کے لیے کوئی ایسی وجہ بنے کہ جمہوریت کی ٹرین پٹڑی سے اُتر جائے اور ان کے ہاتھ بھی کچھ نہ آئے۔
 

Advertisement