لاہور: (دنیا نیوز) مسلم لیگ (ن) کی جانب سے مریم نواز کے ضمانتی مچلکے بروقت جمع نہ کرائے جا سکے جس کی وجہ سے ان کی رہائی ممکن نہیں ہو سکی ہے۔
رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ سے لیگی وکلا نے ملاقات کی او انھیں بتایا کہ مریم نواز کی ضمانت سے متعلق تمام دستاویزات مکمل ہو چکی ہیں۔ انہوں نے رجسٹرار سے درخواست کی کہ ضمانتی مچلکے وصول کرنے کی ہدایات جاری کی جائیں۔
رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ نے مریم نواز کے وکلا کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی عدالتوں کا وقت دوپہر تین بجے تک ہے، اب مریم نواز کے ضمانتی مچلکےبدھ کو ہی جمع ہوں گے۔ احتساب عدالتوں کے تمام ججز جا چکے ہیں۔
یاد رہے کہ لاہور ہائیکورٹ نے گزشتہ روز چودھری شوگر ملز کیس میں مریم نواز کی ضمانت کی درخواست منظور کرتے ہوئے انھیں ایک، ایک کروڑ کے 2 مچلکے اور پاسپورٹ بھی جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں 2 رکنی بنچ نے مریم نواز کی درخواست ضمانت پر محفوظ فیصلہ سنایا۔ عدالت نے کہا ملزمہ پر 2 ارب منی لانڈرنگ کا الزام لگایا گیا۔ نصیر عبداللہ لوتھا نے شیئرز کیلئے رقم بھیجی۔ چودھری شوگر ملز کو نامزد نہیں کیا گیا تھا۔ چودھری شوگر ملز کے اکاؤنٹس استعمال ہوتے رہے، پاناما پیپرز میں چودھری شوگر ملز مرکزی مدعا نہیں رہا۔
یاد رہے چودھری شوگر ملز کیس میں مریم نواز کو 8 اگست کو کوٹ لکھپت جیل سے گرفتار کیا گیا، نیب کی جانب سے مریم نواز پر منی لانڈرنگ کے الزامات لگائے گئے۔ مریم نواز نے لاہور ہائی کورٹ میں چوہدری شوگر ملز کیس میں ضمانت کی درخواست دی۔ مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے موقف اپنایا مریم نواز کا چودھری شوگر ملز میں کبھی بھی متحرک کردار نہیں رہا، ایک عرصے سے مریم نواز کے پاس ملز کے کوئی شیئرز نہیں ہیں۔
وکیل نے بتایا کہ 1991 میں جب چودھری شوگر ملز قائم ہوئی تو اس وقت مریم نواز چھوٹی تھیں، مریم نواز کے وکیل نے بتایا کہ چودھری شوگر ملز کا تمام تر کنٹرول ان کے دادا محمد شریف کے پاس تھا ،محمد شریف کے انتقال کے بعد ملزم کے کرتا دھرتا عباس شریف تھے۔
مریم نواز کے وکیل نے نشاندہی کی کہ چودھری شوگر کے تمام معاملات کی دیکھ بھال اب عباس شریف کے بیٹے یوسف عباس کر رہے ہیں۔ وکیل نے یہ بھی بتایا کہ مریم نواز کا بطور ڈائریکٹر اور سی ای او کردار رسمی نوعیت کا تھا، مریم نواز کے وکیل نے نکتہ اٹھایا کہ اینٹی منی لانڈرنگ کا قانون 2010 میں آیا اور اس کا اطلاق ماضی سے نہیں کیا جا سکتا۔ وکیل کے مطابق نیب کے قانون میں ترمیم کے بعد اعانت کا جرم شامل کیا گیا اور اس کا ماضی سے اطلاق نہیں ہوسکتا لہذا درخواست ضمانت منظور کی جائے۔
ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب جہانزیب بھروانہ کا کہنا تھا انکم ٹیکس ریٹرن کے ریکارڈ کے مطابق مریم نواز کے اثاثے ان کی آمدن سے مطابقت نہیں رکھتے، مریم نواز چودھری شوگر ملز کی سی ای او اور شیئرز ہولڈر رہی ہیں۔ نیب وکیل نے بتایا کہ مریم نواز سے پوچھا گیا کہ چودھری شوگر ملز میں ان کے 41 فیصد شیئرز ہیں، بتائیں کہاں سے آئے، مریم نواز اپنے جواب سے نیب کو مطمئن نہ کر سکیں، چودھری شوگر ملز کے اکاؤنٹس سے شمیم شوگر ملز کے اکاؤنٹ میں بھاری رقم ٹرانسفر کی گئی۔
نیب وکیل نے کہا مریم نواز نے منی لانڈرنگ میں اہم کردار ادا کیا ، چودھری شوگر ملز کے بینک اکاؤنٹس سے مریم نواز کے ذاتی اکاؤنٹ میں بھاری رقم بھجوائی گئی، لہٰذا مریم نواز کی ضمانت خارج کی جائے۔
مریم نواز کی ضمانت پر رہائی کا تحریری فیصلہ 24 صفحات پر مشتمل ہے۔ عدالت نے مریم نواز کو ایک، ایک کروڑ کے دو ضمانتی مچلکے اور 7 کروڑ روپے بطور زر ضمانت جمع کروانے کا بھی حکم دیا۔
تحریری فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ عدالت نے مریم نواز کے خاتون ہونے کی استدعا پر ضمانت منظور کرنے سے اتفاق کیا۔ مریم نواز نہ تو کبھی مفرور ہوئیں اور نہ انہوں نے قانون کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیدا کی۔
فیصلہ میں کہا گیا کہ یہ سچ ہے کہ معاشرے میں کرپشن اور کرپٹ پریکٹس پھیلی ہوئی ہے۔ آہنی ہاتھوں سے کرپشن سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ عدالت قانونی نکات کو مدنظر رکھتے اپنی آنکھیں نہیں موند سکتی۔
لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے فیصلے میں کہا گیا کہ گرفتاری کو سزا کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ عدالت ثبوتوں کے معاملے میں ٹرائل کورٹ کے دائرہ اختیار میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ مریم نواز کے اکاؤنٹ سے نکلوائے گئے 7 کروڑ روپے کے الزام میں پراسکیوشن کے موقف کو تقویت نہیں ملتی۔ یہ معاملہ مزید چھان بین کا متقاضی ہے۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کی دفعہ 3 کے تحت ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی جرم ہو چکا ہے۔ منی لانڈرنگ ایکٹ کی دفعہ 3 نیب آرڈیننس کے اجزائے ترکیبی میں شامل ہے۔
فیصلے کے مطابق ٹرائل کورٹ 2 متوازی قوانین کے اطلاق کے بارے فیصلہ کرے گی۔ پراسکیوشن کا مدعا نہیں تھا کہ یہ رقم غیر قانونی طور پر آئی۔ پراسکیوشن کی جانب سے نصیر عبداللہ لوتھا کا پیش کیا گیا بیان وزارت خارجہ سے تصدیق شدہ نہیں تھا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جوڈیشل مجسٹریٹ کے روبرو قلمبند کروائے گئے نصیر عبداللہ لوتھا کے بیان کے دوران ملزم کا موقف نہیں جانا گیا۔ چودھری شوگر ملز میں دیگر غیر ملکیوں کے بیانات تاحال ریکارڈ نہیں کئے گئے۔